3-پُکار
مفتی ڈاکٹر رشید احمد خورشید
میاں چنوں میں پیش آنے والے واقعہ اور ہماری ذہنیت"
اک عرصہ ہوا ہمارے ہاں یہ روایت چل پڑی ہے کہ اپنے مخالف پر گستاخی کا الزام لگاکر لوگوں کو اکسایاجاتا ہے اور پھرا یک بے ہنگم ہجوم دیکھتے ہی دیکھتے اس ملزم کو فنا کے گھاٹ اتارنے میں سعادت محسوس کرتا ہے۔ ایسا ہی ایک ہولناک واقعہ گذشتہ دنوں میاں چنوں میں پیش آیا۔ ایک شخص کو تشدد کرکے قتل کردیا گیا جوقرآنی اوراق جلارہا تھا۔ واقعے کے بعد تحقیق کی گئی تو معلوم ہوا کہ اس شخص کا ذہنی توازن ٹھیک نہیں تھا ۔ وہ مجنون اور دیوانہ تھا۔ حیرت اس بے ہنگم ہجوم پر ہوتا ہے کہ جو کسی بھی شخص کو مارنے، قتل کرنے، جلانے میں لمحہ بھر کا تامل بھی نہیں کرتا۔ بس ایک نعرے اور ایک آوازے کی ضرورت ہے ۔ پھر کیا ہوتا ہے جناب! ہرشخص ثواب کی نیت سے تھپڑ، گھونسا، پتھر اور ہردستیاب چیز سے تشدد کو نام نہاد دینی جذبے سے سرشار ہوکر ادا کرنا اپنا فرض سمجھتا ہے۔ قرآن کریم میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے کہ جب کوئی فاسق شخص تمہارے پاس خبر لے کر آئے تو پہلے اس کی اچھی طرح تحقیق کرلیا کرو۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ لاعلمی یا غلط معلومات کی وجہ سے کسی کو نقصان پہنچادو۔ کسی پر حملہ کردو، کسی کی جان لے لو اور بعد میں تمہیں اس پر ندامت اور شرمندگی ہوتی رہے کہ یہ کیا ہوگیا؟ (سورہ الحجرات:12) حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا انسان کے جھوٹا ہونے کے لیے یہ بات کافی ہے کہ ہر سنی سنائی بات آگے نقل کردے۔ جب سنی سنائی بات آگے نقل کرنا اتنا سنگین جرم ہے تو سنی سنائی بات پر کسی کو قتل کردینا کتنا خطرناک گناہ ہوگا؟ہمارے معاشرے میں بہت سے لوگوں نے بدقسمتی سے دین کو جذباتیت کے تابع کر رکھا ہے۔ اپنے جذبات کو دین کے تابع کرنے بجائے، دین اسلام کو جذبات کے سانچے میں ڈھال دیتے ہیں۔ یہ بات کسی مسلمان سے مخفی نہیں کہ ایک انسان کی جان اللہ کی نظر میں کتنی محترم اور کتنی اہمیت کی حامل ہے۔ قرآن کریم میں اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ جس نے ایک جان کو ناحق قتل کیا، گویا اس نے پوری انسانیت کو قتل کردیا۔ جس نے ایک جان بچائی گویا اس نے پوری انسانیت کو بچالیا۔ یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ حدود اور قصاص کسی پر جاری کرنا ریاست اور حکومت وقت کی ذمہ داری ہے اور حکومت وقت کو بھی اس کی اجازت اس وقت دی گئی ہے جب ہو پورے منصفانہ طریقے سے مکمل غیر جانبداری کے ساتھ کسی واقعے کی تحقیقات مکمل کرکے اس نتیجے پر پہنچے کہ یہ شخص واقعتا مجرم ہے اور اس پر حد جاری کرنا شرعی حکم ہے۔ قرآن وحدیث کا علم رکھنے والے یہ بات بخوبی جانتے ہیں کہ حدود وقصاص کے معاملے شریعت کا نقطہ نظر بہت حساس اور محتاط ہے۔ بہت سی ایسی چیزیں ہیں جن کی وجہ سے بعض اوقات بہت سے واضح شواہد ہونے کے باوجود شریعت حدجاری کرنے کی اجازت نہیں دیتی۔ایسے میں عوام کا قانون ہاتھ میں لے کر کسی کو موت کے گھاٹ اتارنے کی شرعا کسی بھی طرح حوصلہ افزائی نہیں کی جاسکتی۔ ایسی کوئی بھی صورتحال سامنے آئے تو ایک عام فرد کی ذمہ داری ہے کہ اس کو قانونی طورپر رپورٹ کرواکر اس شخص کو قانون کی گرفت میں دے اور پھر حکومت اور ریاست کی ذمہ داری ہے کہ منصفانہ طریقے سے کیس کا میرٹ پر فیصلہ کرے۔ عوام سے ایک گذارش یہ بھی ہے کہ ایسے خطیبوں سے خود بھی دور رہیں اور اپنے بچوں کو بھی دور رکھیں جو محض جذباتیت سکھاتے ہیں ۔ مستند علمائے کرام سے خود بھی جڑیں اور اپنے بچوں کو بھی جوڑیں۔ مستند اہل علم، اہل اللہ کی صحبت اختیار کریں۔ کوئی کسی بھی فرقے سے تعلق رکھتا ہو، اس کو یہ یاد رکھنا چاہیے کہ کسی خطیب ، واعظ، ذاکر کے کہنے پر کسی انسان کی جان لینے کی شریعت قطعا اجازت نہیں دیتی۔ ایسے کام کا حکم دینے والا خود ایک غیر شرعی کام کا حکم دے رہا ہے۔ لہذا اس سے پتا چلتا ہے کہ جس شخص کو آپ نے مقتدا بنایا ہے وہ اس قابل ہی نہیں کہ اس کی اس طرح کی باتوں کو تسلیم کیاجاسکے۔ اب میاں چنوں والے واقعہ کو ہی دیکھ لیجیے! پاگل اور دیوانہ تو شرعا کسی حکم کا مکلف ہی نہیں۔ اس پر نماز فرض ہے، نہ روزہ۔ کوئی شرعی حکم اس پر لازم نہیں۔ ایسے میں اگر وہ کوئی ایسا کام کررہا ہے تو اس کو روک کر گھر والوں کے حوالے کردینا چاہیے تھا۔ کل کو اگر یہ شخص اللہ کی بارگاہ میں دعوی لے کر کھڑا ہوجائے تو قاتلین کے پاس کیا جواب ہوگا؟
پچھلے شائع ہونے والے کالمز درس قرآن ڈاٹ کام کی ویب سائٹ پر نئے سلسلے "آج کی بات" پڑھے جا سکتے ہیں www.darsequran.com