رکن کی درجہ بندی: 5 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Active
 

فی البدیہہ -         5

عبد الرحمن مدنی

ہر پنتھ ہر کاج ، ڈکیٹ راج

روشنیوں کے شہر پر ظلمتوں کے سائے ہیں
ایمان اور امید  کے شہر میں مایوسیوں کے پھیرے  ہیں
عروس البلاد میں میں نالہ و ماتم ہے

جگہ جگہ پولیس کے ناکے ہیں
قدم قدم پر بے رحم ڈاکے ہیں

موبائل ہو یا نقدی ، پرس ہو یا بیگ
اسکوٹر ہو یا گاڑی ، زیور ہو تیز تیور
سب چھن رہا ہے ، سب لٹ رہا ہے
کھلی فضاء میں بھی دم گھٹ رہا ہے

ع:
جس عہد میں لٹ جائے فقیروں کی کمائی
اس عہد کے سلطان سے کچھ بھول ہوئی ہے ۔۔۔

بنک اور ATM  سے پلٹنے والے لٹ جاتے ہیں
گھر محفوظ ہیں نہ دکانیں ، چوک محفوظ ہیں نہ شاہراہیں ،
 گلیاں محفوظ ہیں نہ چوبارے ۔ 
ہر جانب ڈکیتوں کا راج ہے
ان کہی،  کہی جائے تو یوں بنے کہ ۔۔
یہاں ڈکیٹ راج ہے
چور ڈاکو یوں امڈ رہے ہیں جیسے
بارانی کیڑے مکوڑے
پستولوں سے مسلح ڈاکو،  باحجاب
ماوں کے ڈوپٹے اور بہنوں کی بالیاں تک نوچ رہے ہیں
شہر میں کرونا کی پابندیاں ، اومیکرون کا خوف ،
ہوٹلوں اور شادی ہالوں کی بندش نے معیشت کا بھٹہ بٹھا دیا ہے ۔
 ڈکیتوں اور اچکوں نے زندگی اجیرن کردی ہے
لوگ حکمرانوں سے نالاں اور لفنگوں کے رحم و کرم پر ہیں
دکان کھولو تو لٹ جاو ، بند کرو تو فاقوں مرجاو۔۔
55 دنوں میں 13 ہزار وارداتیں
اور مزاحمت پر 15 قتل ،
بے روزگاری اور مہنگائی کا جن قابو سے باہر اور ڈکیتیوں کا عفریت سرعام محو رقص ہے
ملک کی معیشت کو بہتر کرنے کا عزم رکھنے والا وزیر اعظم سب سے زیادہ ٹیکس دینے والے شہر کے حالات چپ ہے اور یہ چپ عوام کو کھائے جا رہی ہے
ہر طرف ، دھوکا دہی ، فراڈ ، غبن ، کرپشن ، جھوٹ ، لوٹ کھسوٹ
مار دہاڑ ، لوٹ مار ، مارا ماری ، اور کساد بازاری کا دور دورہ ہے

تھانے مک مکا اور عدالتیں آہ و فغاں اور وقت کے زیاں کے مراکز ہیں
نہ جائے رفتن نہ پائے  ماندن
زندگی رواں دواں ، دل دھواں دھواں

اب یہاں بھرم ہے نہ پخراٹ
صرف جگاڑ اور مار دہاڑ ہے

حکومت کسی زعم میں بے غم
عوام سراپا غم اور بے دم
ڈاکے دھنا دھن ، ڈاکو ٹنا ٹن

ادیبوں اور قلم کاروں کا شہر
علماء، طلبہ اور نمازیوں کا شہر
مساجد مدارس اور خانقاہوں کا شہر
سسک رہا ہے ، سوشل میڈیا پر ہر لحظہ سی سی ٹی وی پر ریکارڈ ہونے والی ڈکیتیوں کی وڈیوز نےسانسیں سکھا رکھی ہیں۔
صاحب ثروت دم سادھے ٹکٹکی باندھے ناگہانی سے لرزہ براندام ہیں

مہنگا پٹرول ، ٹریفک جام ، ٹوٹی ہوئی تنگ سڑکیں ، حکمرانوں کی بڑھکیں ،
حکمرانوں کی بے ڈھنگی چال
عوام بےدم و بے حال
کچھ پولیس والے اور کچھ لوگ
ہمت کرکے ڈاکو دھر لیتے ہیں
سڑک پر ہی دم پخت کرلیتے ہیں
جس کی لاٹھی اسکی بھینس
جسکے پاس پسٹل اسی کے سارے موبائل ۔۔ 
ہر جگہ پیسہ چلتا ہے
شریفوں کا دل جلتا ہے
دام چکائے بنا کام نہیں ہوتا
تھانہ ہو یا عدالت ، منصفی ہو یا وکالت ، پیسہ از بس ضروری ہے
لیکن پیسہ کمانے کے حلال راستے
بند ہوتے جاتے ہیں کہ کاروبار ماند پڑتے جاتے ہیں
شہر دلربا کی اب یہی کہانی ہے
ہر طاقتور راجہ ہے ، ہر تیز تیور ، رانی ہے
افواہ ہے کہ ۔۔ کراچی کی بدامنی کی قیمت پر بحریہ اور ڈی ایچ اے کے پلاٹ بکیں گے ،
چار دیواری والی سوسائٹیز کی کامیابی کے لئے کراچی کے پانی کی طرح یہاں کی بد امنی بھی ضروری ہے ۔ 
جنے منہ اتنی باتیں ، جتنے لوگ اتنی کہانیاں جتنے مستانے اتنے افسانے
سچ جھوٹ کی گرد میں
اور محقق بے بس و بےکس

چار دہائیوں سے پستی کی جانب لڑھکایا جانے والے سخیوں کا شہرمفلس کی ردا ہے
جس میں ہر گھڑی درد کے پیوند لگے جاتے ہیں
کوٹہ سسٹم، ڈومیسائل ، وڈیروں جاگیر داروں کا گٹھ جوڑ یہاں کے باسیوں کو بغاوت پر ابھار رہا ہے
قومیت ، لسانیت ، صوبائیت کو پھر سے ہوا دی جارہی ہے۔
پرانے بھتہ خور اور موجودہ رسہ گیر
دونوں پھر سے نفرت کو ہوا دے رہے ہیں اور اسی میں ایک کی بقاء اور دوسرے کا ارتقاء ہے
پرانا سیٹ پھر لانے کی تگ و دو جاری ہے۔
انڈین اور ایرانی لابی کے پورے پورے لشکر یہاں سے گرفتار ہورہے ہیں انہوں نے یہاں سلیپنگ سیلز بنا رکھے ہیں ۔۔
اور ڈاکو ہیں کہ سلیپنگ پلز کھا کر بھی سونے کو تیار نہیں
جو اچھے اور سچے ہیں وہ اتحاد کے کچے ہیں
جو 30 سال سے پکے ہیں انہوں نے پکا کر رکھ دیا ہے
ان مسائل کا حل کہاں ہے ؟
دہائی ہے دہائی ہے ، لیکن سوال یہ ہے کہ کہاں شنوائی ہے ؟

کراچی کے ہر شہری کو ، شہر سے محبت کرنے والے ہر فرد کو سوچنا ہوگا۔۔
آواز اٹھانی ہوگی
واٹس ایپ گروپس میں بات کرنی ہوگی
سوشل میڈیا کو ہتھیار بنانا ہوگا
یک آواز ہو کر ظلم کے خلاف سینہ سپر ہونا ہوگا
ظلم کی فصل پک چکی ، عدل کا بیج بونا ہوگا ۔۔
پختہ سیاسی شعور کو اسلام پسندوں کی صدا پر کان دھرنا ہوگا۔۔
انقلاب کے نعرے لگانے ہونگے
قصر اقتدار کے مکینوں کو دوٹوک پیغام دینا ہوگا کہ ۔۔
خلق خدا اب انقلاب کے دہانے پر ہے
منبر و محراب کے مکینوں کو ظلمت کدے میں روشنیوں کی قندیلیں روشن کرنی ہونگی ۔
نظام قدرت کاہلوں کی کایا پلٹ نہیں کرتا ، دست و بازو کا فریضہ سرانجام دے کر ہی تقدیر پر بھروسہ اصل ایمان ہے
اور اب ۔   تجدید ایمان کی ضرورت ہے
ہر دست کو مشعل اٹھانی ہوگی
ہر فرد کو بیدار کرنا ہوگا
پھر سپیدہ سحر نمودار ہوگا
پھر روشنی کی کرن جھلملائے گی
پھر آسمان سے آواز آئے گی
نصر من اللہ وفتح قریب۔۔

پچھلے کالم پڑھنے کے لئے "درس قرآن ڈاٹ کام" ویب سائیٹ پر آج کی بات کی بٹن دبائیے
www.darsequran.com

Filbadeeh5