مفکر پاکستان علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ حضور خاتم المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم کی ختم ِنبوت پر کامل یقین رکھتے تھے اور اس سے انکار کو ناممکنات میں سے گردانتے تھے ،نیز ختم ِنبوت کے منکرین خصوصاََ قادیانیوں کے کفر کا بر ملا اظہار فرماتے تھے ۔ذیل میں علامہ اقبال مرحوم کے عقیدۂ ختم ِنبوت اور قادیانیت کے حوالے سے چند ارشادات نقل کیے جارہے ہیں ۔٭ علامہ اقبال فرماتے ہیں ’’ذاتی طور پر مجھے اس تحریک ) قادیانیت ( کے متعلق اس وقت شبھات پیدا ہوئے جب ایک نئی نبوت ،جو پیغمبر اسلام کی نبوت سے بھی بر تر تھی، کا دعوی کیا گیا اورتمام عالم اسلام کے کافر ہونے کا اعلان کیا گیا ۔بعدازاں میرے شبھات نے اس وقت مکمل بغاوت کی صورت اختیار کرلی ،جب میں نے اپنے کا نوں سے اس تحریک کے ایک رکن کو پیغمبر اسلام کے بارے میں نہایت ناز یبا زبان استعمال کرتے سنا ‘‘۔٭’’ ختم ِنبوت اسلام کا ایک نہایت اہم اور بنیادی تصور ہے ۔ اسلام میں نبوت چو نکہ اپنے معراج کو پہنچ گئی لہٰذا اس کا خاتمہ ضروری ہو گیا ہے٭ختم ِنبوت کے معنی یہ ہیں کہ کوئی شخص بعد اسلام اگر یہ دعوی کرے کہ مجھ میں ہر دو اجزا نبوت کے موجود ہیں۔یعنی یہ کہ مجھے الہام ہوتا ہے اور میری جماعت میں داخل نہ ہونے والا کا فر ہے تو وہ شخص کا ذب ہے ‘‘۔٭’’اسلام کی اجتماعی اور سیاسی تنظیم میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی ایسے الہام کا امکان ہی نہیں ،جس سے انکار کفر کو مستلزم ہو۔جو شخص ایسے الہام کا دعوی کرتا ہے وہ اسلام سے غداری کرتا ہے‘‘۔
٭جو اہر لعل نہرونے مرزائیوں کی حمایت میں ایک مضمون لکھا ،جس کا علامہ صاحب نے مدلل اور جامع جواب دیا چنا نچہ آخر میں لکھتے ہیں
|