۷ ستمبر ۱۹۷۴ء ہماری تاریخ کا نہایت تابناک دن تھا۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان کی پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں نے اس دن اپنے الگ الگ اجلاسوں میں آئین میں ترمیم کا ایک تاریخی بل اتفاق رائے سے منظور کر لیا، جس کے تحت قادیانیوں کے دونوں گروپوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دے دیا گیا ۔۷ستمبر ۱۹۷۴ء کی شام کو تمام مسلمانوں نے اپنی آنکھوں سے قومی اسمبلی میں قادیانی مسئلہ کا جو عظیم اور مبارک فیصلہ ہوتے دیکھا، یہ ہر مسلمان کے لیے خوشی کا باعث تھا۔ بجا طور پر ہر فرد ایک دوسرے کو مبارک باد دیتا تھا۔ پوری ملت اسلامیہ جسد واحد کی طرح یکجا ہو کر مسرتوں سے جھوم اٹھی۔ قادیانیت کے مورچے پر فتح مندی کے بعد امت مسلمہ اور پورے عالم اسلام میں خوشی کی ایک لہر دوڑ گئی لیکن اس عظیم فیصلے کے بعد قادیانیت کے خلاف تحریکیں چلانے والے بہت سے لوگ اس فیصلے کے بعد مطمئن ہو کر بیٹھ گئے۔ وہ یہ سمجھے کہ اب ان کی ذمہ داریاں ختم ہو گئیں، حالانکہ ایسا نہیں تھا، عملاً قادیانیت اپنی ظاہری اور پس پرد ہ سر گرمیوں کے لحاظ سے اب تک ملت اسلامیہ کے لیے ایک فتنہ بنا ہوا ہے۔ ظاہر بات ہے کہ کوئی خطرہ صرف آئین میں ترامیم سے ختم نہیں ہو سکتا۔ راقم الحروف نے مختلف فورموں پر ان خدشات کا اظہار بھی کیا اور اپنے مجلہ ’’الحق‘‘کے صفحات میں بار بار امت مسلمہ کو متوجہ کیا کہ اس فیصلے کے بعد آئین کے تمام قانونی اور ذیلی تقاضے پورے کیے بغیر قادیانیت مسلمانوں کے لیے پہلے سے زیادہ خطر ناک ثابت ہو سکتی ہے کہ اب اسے آئینی تحفظ اور غیر مسلم شہریوں کے حقوق کے پردے میں امت مسلمہ کے خلاف اپنی تمام حسرتیں نکالنے کا موقع مل سکتا ہے ۔قومی اسمبلی میں جب قرار داد اقلیت منظور ہوئی تو راقم نے اس وقت بھی لکھا تھا کہ یہ نہایت بے بصیرتی اور عاقبت نااندیشی کی بات ہوگی کہ سانپ کو زخمی کر دینے کے بعد نہ صرف یہ کہ اسے کھلا چھوڑ دیا جائے، بلکہ اس کے زخموں کا اندمال کیا جائے۔ دشمن کے عزائم ،کردار، سرگرمیاں اور اس کی پوری تاریخ سامنے آجانے کے باوجود بھی اس کے ساتھ ایسا سلوک رواداری یا وسیع الظرفی نہیں بلکہ ملک و ملت سے غداری کہلائی جا سکتی ہے، اس لیے آئینی ترمیم کے فوراً بعد اس کے تقاضے پورے کرنا چاہیے تھے۔ اس ضمن میں خود ناچیز نے صدر ضیاء الحق سے وفاقی مجلس شوریٰ میں امتنا ع قادیانیت آرڈیننس نافذ کرانے میں بھر پور جدوجہد کی اور الحمد للہ قانون سازی کی گئی مگر اُس وقت بھی انہی خدشات اور امت مسلمہ کے مستقبل اور عالم اسلام کے درد میں کوئی بخل کیے بغیر بلا لحاظ مشرب و مسلک صاحبان علم و فضل اور مختلف مکاتب فکر کے زعماء وعلمائ، اہل قلم اور ارباب فکر کو اظہار خیال کی دعوت دی۔ اس سلسلے میں نہ حزب اقتدار اور اختلاف میں تفریق کی، نہ اپنوں اور غیروں میں۔ ہم نے پوری فراخ دلی سے کام لیا، یہاں تک کہ اس وقت کے وزیر اعظم پاکستان، وزیر قانون اور وزیر مذہبی امور تک کو بھی اظہار خیال کی دعوت دی اور ملک بھر کے جدید تعلیمی اداروں ،یونیورسٹیوں اور سیاسی جماعتوں کے سربراہوں کو ایک سوالنامہ بھیجا کہ قادیانیوں کے آئینی طور پر غیر مسلم اقلیت قرار دیے جانے کے فیصلے اور اس کے قانونی اور ذیلی تقاضوں پر اظہار خیال فرمائیں ۔ان میں سے اکثر حضرات کی سعادت مندی تھی کہ انہوں نے حتی المقدورحصہ لیا اور کثیر تعداد میں مشایح ،علماء اور مفکرین نے اپنے اپنے تاثرات بڑی فراخ دلی سے بیان فرمائے۔
سوالنامے کی چار شقیں تھیں : ۱۔آئینی فیصلہ کے بارے میں آپ کے تاثرات و خدمات؟۲۔کیا اس فیصلے کے بعد ہماری ذمہ داری ختم ہو گئی؟۳۔ملک و بیرون ملک قادیانی فتنے کے سیاسی اور دینی اثرات؟۴۔ان مہلک اثرات کے تعاقب کا طریقہ کار اور لائحہ عمل؟
|