’’دیکھاآپ نے …قاریات کتنے شوق سے بار بار مطالبہ کر رہی ہیں کہ بھابھی کی تحریر بھی لگائیے مگر… مگر آ پ ہیں کہ بس … کیاکوئی دشمنی ہے آپ کومیری تحریروں سے…‘‘ میں نے خواتین کے خطوط والاصفحہ یکدم ان کے سامنے کرتے ہوئے کہاتووہ جوکہ مطالعے میں مصروف تھے، بوکھلاہی گئے۔
’’اوہو،کچھ صبر کرلوناں ۔دیرسے تحریریںشایع ہونے کی شکایت صرف تم کونہیںسبھی کو ہے۔‘‘وہ ایک بار پھر اخبار کی سرخیوںپرنظرجما کربولے۔
’’مگر میںنے توبہت اچھی چیزیں بھیجی تھیں۔اورآپ کے ہاتھ میں دی تھیں ،یادہے ناں۔‘‘میںنے بڑے مان سے کہا۔
’’ہاں ہاں، اچھی طرح یاد ہے مگر دفترجاکر میں صرف میگزین ایڈیٹر ہوتا ہوں۔تمہاری تحریر بھی سب کی تحریروںکی طرح قطار میں ہوگی ،دبکی ہوگی کہیں۔‘‘
’’یعنی یعنی آپ کو پتا ہی نہیں کہ میری تحریر کہاںہے ،کس حال میںہے؟آپ کوشاید اس کا نام بھی یا د نہ ہو۔‘‘
’’ اللہ کی بندی میرا دما غ کوئی کمپیوٹر تو نہیں جو ہر ہر تحریر کویاد رکھے۔اورتم نے تحریریں بھیجی ہی کتنی ہیں جو ہرروزپوچھتی ہو۔‘‘
’’ایک خط ایک گلدستہ یعنی دو…‘‘میں نے دو کو لمبا کرکے کہا۔’’بھیجے ہوئے بھی دومہینے ہوگئے ۔‘‘
’’ماشاء اللہ اوردوسری قاریات نے د س دس بیس بیس تحریریںبھیجی ہوئی ہیں ۔پانچ پانچ چھے چھے ماہ سے ۔ان کاحق پہلے نہیں؟‘‘
’’اورمیراکوئی حق نہیں۔آپ کوکیاپتامیں کتنی مشکل سے لکھتی ہوں۔گھر کاسارا کام بھی کرو ،پھراتنی مشکل سے لکھو اور…اور آپ ہیںکہ کچھ احسا س ہی نہیں۔‘‘میںرونے کے قریب ہوگئی۔
’’یعنی مجھے احساس نہیں۔‘‘وہ لال پیلے ہوکربولے۔
’’ہاںبالکل احساس نہیں۔میری سہیلی ٹھیک ہی کہہ رہی تھی کہ خواتین کے رسالوں کے سارے مسئلوں کی جڑ یہ ہے کہ عموماً میگزین ایڈیٹر مرد ہوتے ہیں۔ایڈیٹر کوئی عورت ہوتی تواتنا ظلم نہ ہوتا۔مردوں کو تو احسا س ہوہی نہیں سکتاکہ ہم کس طرح لکھتی ہیں۔‘‘
’’کونسی سہیلی ہے جس نے تمہارے دماغ میں یہ الٹی سیدھی باتیں پھونکی ہیں؟؟‘‘وہ تلملااٹھے۔
’’ثنانذیرنے،اوریہ الٹی سیدھی باتیں نہیں سیدھی سادی باتیں ہیں۔‘‘
’’یہ ثنا نذیروہی تونہیں جو پہلے ماہنامہ جلیبیاںمیں کام کرتی تھی!!‘‘
’’ہاں وہی تو۔جب ملتی ہے شکایت کرتی ہے کہ اس نے کتنی اچھی اچھی مزاحیہ تحریریںآپ کو بھیجی ہیں مگر آپ نے ایک بھی شایع نہیںکی۔‘‘
’’کیوںکروں،کوئی معیار ہی نہیں ا س کی تحریروںکا‘‘وہ بھنائے۔
’’عورتوںکے رسائل کی کسی تحریر کامعیار کیا ہوتاہے ،یہ ایک عورت بہتر سمجھ سکتی ہے ۔آپ مرد کیا جانیں عورتوں کے احساسات!‘‘میں رکھائی سے بولی۔
’’اچھا یہی بات ہے تومیری طرف سے تم یاتمہاری ثناصاحبہ ایڈیٹر بن جاؤ۔ویسے بھی مجھے ایک ہفتے کے لیے اپنے دوستوں کے ساتھ مری اور کاغان جاناہے۔تب تک تمہی کرلو ایڈیٹری۔‘‘
’’آپ سچ کہہ رہے ہیںیاغصہ نکال رہے ہیں ‘‘میری آنکھوںمیں ستارے جگمگانے لگے۔
’’غصے کی کیا بات ہے اس میں۔بالکل سچ کہہ رہا ہوں۔ سیر کاپروگرام توپہلے سے طے تھا، اس بہانے تم بھی اپنا شوق پوراکرلو۔میں بھی دیکھوں گا تم میںکتنا دم خم ہے۔‘‘
’’ہاں دکھادیں گے دم خم ۔آپ ہفتے میں ایک شمارہ تیار کرتے ہیں ۔ہم تودو دوبھی تیار کرسکتے ہیں۔‘‘میں نے نازسے کہا۔
’’ہاں ہاں دیکھ لیں گے۔‘‘وہ مسکراکربولے۔
’’ٹھیک ہے پھراگلا شمارہ ہم تیار کریں گے۔آپ شام کوگھرپر ہی لے آئیے گارسالے کی ڈاک…‘‘میں نے بڑے اعتماد سے کہا۔
’’ہاں جی! اسے کہتے ہیں آبیل مجھے مار۔‘‘وہ دفترکے لیے باہرنکلتے ہوئے گنگنائے مگرمیرے تیز کانوںنے ان کی خودکلامی سن لی۔
’’جی !یہ کیاکہاآپ نے؟کس کوبیل کہا؟‘‘
’’میں نے توبس اتناکہا،آبیل مجھے مار!‘‘
’’وہ تومیں نے بھی سنا،مجھے مطلب بتائیے۔‘‘اشتیاق احمد کے ناول نہ پڑھنے کی وجہ سے اردومحاوروں میں کمزور ہوں،اس لیے سوالیہ نشان بن گئی۔
’’مطلب تم چنددنوںمیں خود سمجھ جاؤگی ۔‘‘یہ کہہ کر وہ تیزی سے باہرنکل گئے۔
جی ہاں! میرے شوہرخواتین کے ایک میگزین کے مدیر ہیں۔میری ان سے یہ شکایت بجا تھی کہ وہ میری تحریریں شایع نہیں کرتے۔ا سی بات پراکثرجھگڑا ہوتا تھا۔مجھے کیا معلوم تھا کہ کسی دن جھگڑے کانتیجہ اتناخوش گوار بھی نکلے گا۔بیٹھے بٹھائے ہم مدیرہ بن جائیں گے۔سچ ہے جب خدادینے پرآتاہے توچھپر پھاـڑ کر دیتا ہے۔
٭
’’دیکھو!یہ ڈاک ہے۔‘‘وہ ایک تھیلامیرے سامنے رکھتے ہوئے بولے۔’’ اسے پڑھ کرخطوط مضامین اورکہانیاں منتخب کرنا۔جو پسندآئیں انہیں کمپوزکرالینا۔تصحیح اچھی طرح دو دوتین تین بارکرنا۔کوئی ہے تمہاری جاننے والی کمپوزر،ڈیزائنر؟‘‘
’’ہاں ہاں نسرین ہے ناںبہترین کمپوز،ڈیزائنر،اورثنانذیر بھی تیار ہے میراساتھ دینے کے لیے۔‘‘
’’اچھاپھرتوبن گیاتمہاراکام۔اچھادیکھو،رسالہ بن جائے توایک سی ڈی بنا کردفترشہزاد صاحب کو بھجوادینا،بلکہ انہیںفون کردینا کہ رسالہ تیار ہے، وہ منگوا لیں گے، ڈیزائننگ وغیرہ کا کام وہی کروائیں گے۔ اور ہاں اپنی دوسری سم چھوڑے جارہا ہوں۔ اسے دو سے چار بجے تک کسی بھی فون سیٹ پر لگا لینا۔ ان اوقات میں اسی پرقاریات کے فون آتے ہیں۔ان سے مناسب انداز میں بات کرنا۔ کسی سے تحریر لگانے کا وعدہ مت کرنا، نہ ہی کسی کو مایوس کرنا۔ میری واپسی پیر کو ہوگی۔ پورے آٹھ دن بعد۔ اتوار کو شمارہ لازمی طور پر تیار ہوکر دفتر پہنچ جانا چاہیے۔ اور ہاں۔ کوئی تحریر کسی سے دوستی کی بنا پر منتخب نہ کرنا، بس معیار دیکھنا…اور…‘‘
’’اچھا ناں مجھے پتاہیںیہ باتیں۔آپ دیکھ لیجیے گا،اتنا اچھاشمارہ بنے گاکہ سب یاد کریں گے…‘‘
’’اچھا یہ بارہ ہزارروپے رکھو۔اسی میں گھرکا خرچہ بھی چلاناہے اورتمہارے ساتھ جو لڑکیاںکام کریں گی ،انہیں بھی کام کے اختتام پر جتنا بنے ، دے دینا۔سمجھیں۔‘‘
’’خوب سمجھی۔‘‘میںنے فٹ سے بارہ ہزارجیب میں رکھتے ہوئے کہا۔’’اور میری تنخواہ ‘‘
’’وہ …وہ میں واپس آکر ہی دوں گا۔ابھی جیب ہلکی ہے۔اورسفرکے لیے بھی توکچھ ساتھ رکھناہے ناں۔‘‘
٭
وہ چلے گئے۔اگلے دن بچوں کودارالعلوم بھیجنے کے بعد میں باقاعدہ ایڈیٹر بن چکی تھی۔جب سے اس گھرمیں قدم رکھاتھا،ہر وقت مضمون نگاری ،تصنیف وتالیف،تصحیح اور ایڈیٹنگ کے کاموں کا ماحول دیکھاتھا،اس لیے یہ سب کام میرے دیکھے بھالے تھے۔میں نے کتب خانے میں میزکرسی لگالی ۔ثناکونائب مدیرہ بناکرایک طرف بٹھادیا۔اسے پہلاکام یہ بتایا:
’’ میرا موبائل لو، میری جتنی سہیلیاں ہیں سب کو میسج کرو کہ اب مدیرہ ہم ہیں ،اب تحریریں نہ شایع ہونے کی یا دیر سے شایع ہونے کی شکایت نہیں ہوگی۔اس لیے بے دھڑک تحریریں بھیجیں۔‘‘
’’ٹھیک ہے اورکچھ ‘‘
’’اورروزانہ ٹھیک دوبجے میرے موبائل میں یہ والی سم لگادینا۔قاریات کی کالیںآئیںگی‘‘میںنے میاں جی کی سم اس کے حوالے کرتے ہوئے کہا۔
اس دوران نسرین بھی آگئی اورآتے ہی بولی:
’’واہ کیابا ت ہے،سچ بتاؤںباجی آپ مدیرہ بن کربہت اچھی لگ رہی ہیں۔‘‘
’’اچھااچھامکھن نہ لگاؤ۔ثنا!دیکھو، اسماء سے کہنا سب کے لیے ایک ایک پیالی چائے بنادے اورکیک بھی بھیج دے۔ہمیں ذرابھوک بھی لگ رہی ہے۔‘‘ہم مدیرہ بن گئے تھے تواب سارے لوازمات پورے کرنے تھے۔
نسرین اب کمپیوٹرکھولے بیٹھی تھی اورگیم کھیل رہی تھی۔
’’بھئی یہ کیا ہورہا ہے۔کچھ کام کروناں‘‘میںنے اسے گھورا۔
’’اچھاوہ باجی ،میںنے بہت کچھ لکھ رکھاہے،آپ شایع کردیںگی ناں‘‘نسرین نے اپنے پرس سے ایک بڑاسالفافہ نکال کرمیرے سامنے رکھ دیا۔
’’ہاں ہاں کیوںنہیں۔‘‘ہم نے حاتم طائی ہونے کاثبوت دیا۔
’’اچھا تو پھر اپنی کہانیاں میں آج خود ہی کمپوز کرلوں۔ ویسے بھی ابھی فارغ بیٹھی ہوں۔‘‘
’’ہاں کرلو کرلو۔گیم کھیلنے سے تویہی اچھاہے۔ ویسے کتنی کہانیاں ہیں؟‘‘ ہم نے کیک کاآخری لقمہ منہ میںٹھونستے ہوئے کہا۔
’’بس سات ۔‘‘
’’ماشاء اللہ ماشاء اللہ ۔‘‘ہم دل میں توگھبرائے مگرپھر بھی حوصلہ افزا نگاہوں سے اسے دیکھا اور خوب شاباش دی۔ آخر طے جو کرلیا تھا کہ مردوںکی طرح ہم کسی کی حوصلہ شکنی کاگناہ نہیں کریں گے۔
٭
’’ سب سے پہلے تو ڈاک ہی دیکھنا ہوتی ہے۔‘‘ہم بڑبڑائے۔ یہ کہہ کرہم نے خطوط کھولنا شروع کردیے۔
’’اوہو۔یہ کیا‘‘
ایک ایک لفافے میں دس دس تحریریں ٹھونسی ہوئیں،بعض لفافوں پرپنیں اتنی زیادہ لگی ہوئی تھیںکہ نکالتے نکالتے ہاتھ دکھ گئے۔بعض پرگوندکی شیشیاںالٹ دی گئی تھیں۔کھولتے کھولتے کاغذپھٹ گئے۔پتاہی نہیں چلاکہ تین گھنٹے گزرگئے اورابھی ہم لفافے ہی کھول رہے تھے کہ ظہرکی اذان ہونے لگی ۔
’’یا اللہ یہ کیا ہوا…؟‘‘ ہم نے سٹپٹا کر گھڑی دیکھی، اور نماز کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے۔
نماز سے فارغ ہوکرابھی مصلے پرہی بیٹھے تھے کہ ثنانے ہمارے فون میں میاںجی کی سم لگادی،فوراً ہی فون کی گھنٹی بجنے لگی۔ہمیں کال وصول کرناپڑی۔
’’السلام علیکم ! جی کون ۔‘‘
’’میں مس زاہدہ بات کررہی ہوں۔دوہفتے پہلے ایک تحریربھیجی تھی ۔اب تک نہیںلگی آخرکیوں؟‘‘
’’جی مس زاہدہ وہ دراصل دوہفتے پہلے تک بلکہ کل تک رسالہ کوئی اور تیار کرتا تھا۔اب یہ موقع ہمیں ملاہے یعنی آپ کی ایک بہن کوجوآپ ہی کی طرح حسا س اورذمہ دار ہے۔ان شاء اللہ اب آپ کی تحریر جلدشایع ہوگی۔‘‘ہم نے لہجے میں مٹھاس گھولتے ہوئے کہا۔
’’کتنی جلد؟کیااس ہفتے۔‘‘
’’چلیے کوشش کرتے ہیں ،اسی ہفتے لگانے کی ۔‘‘
’’شکریہ ،شکریہ‘‘وہ بولیں اورفون آف کردیا۔تب ہمیں خیال آیاکہ تحریرکانام توانہوںنے بتایاہی نہیںاورنہ ہم نے پوچھا۔دوبارہ انہیں فون کیامگراب ان کافون مصروف تھا۔ابھی مصلے سے اٹھے تھے کہ فون کی بیل پھربجی ۔
’’کون ؟‘‘
’’میںزبیدہ بنت شکیل بات کررہی ہوں،آپ کون؟‘‘
’’ زبیدہ بنت شکیل میں تمہاری چچی ہوںمدیرصاحب کی اہلیہ،اب مدیرہ میں ہوگئی ہوں۔‘‘ہم نے زبان میںچینی کی آمیزش کرتے ہوئے کہا۔
’’ارے واقعی !واہ پھرتو بڑامزہ آئے گا۔پتاہے ،انکل نے میرا بہت دل توڑاہے،میری تحریروں کی ایک بار بھی تعریف نہیں کی، ہر بار کہتے ہیںکہ تھوڑی محنت اور کرو۔لگتاہے انہیں ہماری محنت کا کوئی احسا س ہی نہیں۔اب چاچی آپ تو ایسا نہیں کریں گی ناں۔‘‘
’’نہیں نہیںزبیدہ !خدا نہ کرے‘‘ہم ایک انجانے احساس کے تحت آبدیدہ سے ہوگئے۔’’ہم ایسے نہیں ہیں، ہم خود ایسے دور سے گزر چکے ہیں۔ ہمیں بخوبی احساس ہے کہ ایک عورت کا لکھنا کیا ہوتا ہے، لڑکیوں کے لیے لکھنا کتنا مشکل ہوتا ہے۔‘‘
’’چچی آپ بہت اچھی ہیں ،اچھا میں آ پ کو اپنی تحریروں کے نام بتاؤں ؟‘‘
’’ہاں ہاں بتاؤ‘‘
’’پہلے وعدہ کریں شایع کریں گی ناں۔‘‘
’’ہاں بھئی ہم توبیٹھے ہی اسی کام کے لیے ہیں۔‘‘ہم نے سخاوت جھاڑی۔مگر ساتھ میں یہ سوچ کر کچھ پریشان بھی ہوئے کہ اگر تحریریں فضول ہوئیں تو پھر اس کا دل کیسے توڑپائیں گے۔
’’سنیے۔اچھے نام اچھے کام ،مہمانوںکی خاطر مدارات کے جدید طریقے،گلی سڑی چیزوں کوکارآمد بنائیے،امی اوردادی کوخوش رکھنے کے آزمودہ نسخے،حسن سلوک کریںاور دامن نیکیوںسے بھریں ،عیدکا چاند ،محرم کے آداب،ماہ رجب کی فضیلت ،رمضان کے فضائل…‘‘وہ سانس لینے کورکی۔
’’بس یہی تحریریں ہیں۔‘‘ہم نے فوراً کہاکہ کہیںوہ عیدالفطر اوربقر عیدتک نہ جاپہنچے۔
’’نہیں یہ تومضامین ہیں،کہانیاںبھی تولکھی ہیں ،وہ تو اوربھی زیادہ ہیں،مثلاً ہم ایک ہیں ایک رہیں گے،راہی عشق ووفاکے ،عندلیب،حدسے زیادہ بے وفائی،جرم کااحساس، کہاں ہو تم کب لوٹوگے،ہراول دستہ،دشتِ تمنا…‘‘
’’بس بس زبیدہ باقی کہانیاں پھرکبھی بتادینا،پہلے توہم تمہارے مضامین تلاش کرتے ہیں ۔‘‘
’’اچھاچچی یہ جوآخرمیںمیںنے دونام بتائے ناںہراول دستہ اوردشتِ تمنا ،یہ ناول ہیں۔ہراول دستہ کوئی سو صفحے کاتھا،مدیر صاحب نے پتانہیںکہاں غائب کردیا۔دشتِ تمنا میںنے چنددن پہلے بھیجاہے،صرف چونسٹھ صفحے ہیں،چچی آپ اورکچھ لگائیں یانہ لگائیں اسے ضرورلگائیے گا۔قسط وارلگائیے گا۔ٹھیک ہے ناں‘‘وہ بہت ہی التجائیہ انداز میں بولی۔
’’ٹھیک ہے دیکھیںگے دشت ِتمنا کو بھی،بس ابھی ہم ذرامصروف زیادہ ہیں۔دوسری بہنیںبھی کال کررہی ہوں گی۔‘‘
ہم اتنی لمبی کال سے اکتاگئے تھے ،چنانچہ پھرتی سے فون آف کردیا،گھڑی دیکھی تو تین بج رہے تھے۔دماغ گھوم رہاتھا،ہم نے غورکیاتو زبیدہ کے بتائے ہوئے ناموںمیں سے سوائے دشتِ تمنا کے ہم سب کچھ بھول چکے تھے۔(جاری ہے)
{rsform 7}