(دوسری قسط)
اظہر آفس سے دوڑا چلا آیا۔ زرینہ خالہ نے محلے کی ایک لیڈی ڈاکٹر کو بلوایا تھا۔
’’آپ کی بہو بہت ویک ہے۔ خون کی کمی ہے ۔پھل اور جوسز زیادہ استعمال کرائیں۔‘‘ ڈاکٹر نے ہدایات دیں تو زرینہ خالہ کا منہ بن گیا۔
’’ہونہہ! بھئی اچھا کھاتی پیتی ہے۔ کسی چیز کی روک ٹوک نہیں۔ بس مکر ہی ختم نہیں ہوتے۔ ایک ہمارے زمانے تھے ۔ نویں مہینے تک کام کاج کرتے رہتے تھے۔ ایک یہ نواب زادی ہیں چھٹے ماہ ہی میں پلنگ توڑنے لیٹ گئیں۔‘‘ وہ دالان میں بچھے تخت پر بیٹھی دیر تک باآواز بلند بڑبڑاتی رہیں۔
اندر اظہر شرمندہ شرمندہ سا عائشہ کا ہاتھ پکڑے بیٹھا تھا۔
’’میں کل ہی کام والی کا انتظام کرتا ہوں۔‘‘
’’نہیں رہنے دیں! خالہ ناراض ہوں گی۔ میں کر لوں گی۔ بس آج کچھ زیادہ ہی کمزوری ہو گئی۔‘‘ نقاہت کے باوجود عائشہ نے مسکرا کر کہا۔
’’لیکن تم کچھ کھاتی بھی تو نہیں ہو۔ میں کل سیب لایا تھا۔ تم نے چکھے بھی نہیں۔‘‘ اظہر بولا۔
’’وہ تو۔۔ ہاں مجھے بھول گیا۔ بس آج ہی جوس بنا لیتی ہوں۔‘‘ عائشہ بتاتے بتاتے رہ گئی کہ سیبوں کا شاپر تو زرینہ خالہ نے اپنے کمرے کے شوکیس میں رکھ کر تالا لگا دیا تھا۔
اگلے دن خالہ امتل عائشہ کو دیکھنے آئیں تو زرینہ خالہ بولیں۔ ’’آجکل کی لڑکیوں کے نخرے ختم نہیں ہوتے۔ دودھ انہوں نے نہیں پینا۔ دیسی گھی سے ان کو الرجی ہے۔ بھئی ہم تو سب کچھ کھا لیا کرتے تھے۔ ‘‘
خالہ امتل کو ہنسی آگئی۔ ’’زرینہ! ہمارے زمانے میں دودھ خالص ہوتا تھا ۔ پھر اس میں نانیاں دادیاں ڈرائی فروٹ سے بنی پنجیری ڈال کر کھیر سی بنا دیتی تھیں۔ آج تو دودھ کے نام پر ہم پتہ نہیں کیا پیے جارہے ہیں۔ ملائی کے نام پر ہلکی سی جھلی جو اترتی ہے وہ تو تم ایک پیالے میں اکھٹے کرتی جاتی ہو۔پھر بہو کیا کھائے؟‘‘ خالہ امتل خطرناک حد تک منہ پھٹ تھیں لیکن زرینہ خالہ کے لیے قابلِ برداشت اس لیے تھیں کہ ان کا جوان برسرروزگار بیٹا انہوں نے نازیہ کے لیے سوچ رکھا تھا۔
۔۔۔۔۔۔
اس دن اظہر نے کہا۔’’عائشہ ! میں کل تمھیں نرسنگ ہوم لے کر جاؤں گا۔ میں نے شام کا ٹائم بھی لے لیا ہے۔ پھر کھانا بھی باہر کھائیں گے۔‘‘ عائشہ کو تو اتنی خوشی ہوئی کہ بس۔ جب سے شادی ہوئی تھی وہ صرف ایک دفعہ گھومنے جاسکی تھی وہ بھی زرینہ خالہ اور نازیہ کے ساتھ۔ اس کے بعد بھی جب اظہر گھومنے کے لیے پروگرام بناتا زرینہ خالہ اور نازیہ بھی تیار ہو جاتیں۔ پھر ٹیکسی کے کرائے کون دے گا۔ آجکل کرائے بہت بڑھ گئے ہیں۔ سے شروع ہو کر بات یہاں ختم ہوتی کہ کیا ضرورت ہے جانے کی۔ جو کھانا ہے پیک کراکے لا آؤ۔ رومانٹک ماحول میں پیار بھری باتیں، نرم سبز گھاس اور ٹھنڈی تازہ ہوا عائشہ کے لیے خواب سابن گیا تھا۔
۔۔۔۔۔۔
اگلا سارا دن اس نے بے حد خوشی خوشی کام نبٹائے۔ شام کو اظہر جلدی گھر آگیا ۔ عائشہ تیار تھی۔ دونوں موٹر سائیکل پر بیٹھ کر چلے گئے اور زرینہ خالہ کے سینے پر سانپ لوٹ گئے۔
رات دس بجے واپسی ہوئی تو ایک افتاد ان کی منتظر تھی۔
’’ہائے مجھ بڑھیا کو اکیلا چھوڑ کر چلے گئے۔ میں کیا کروں۔ صبح سے بخار میں پھنک رہی ہوں۔ میرا کوئی خیال نہیں کسی کو۔‘‘ زرینہ خالہ کے واویلے سن کر عائشہ ششدر رہ گئی۔ ابھی شام کو تو وہ تخت پر بیٹھ اخبار پڑھ رہی تھیں ڈرائے فروٹ کھا رہی تھیں۔ اور یہ نازیہ کہاں چلی گئی۔
’’نازیہ تو یونیورسٹی سے آتے ہی سو گئی تھی۔ اس کو کیوں پریشان کروں میں۔ مجھ دکھیاری کا تو ایک ہی سہارا تھا۔ وہ بھی زن مرید ہو گیا میں کہاں جاؤں؟‘‘
محمودصاحب نے اظہرکی خوب کلاس لی کہ ماں کی طبیعت خرا ب ہونے کے باوجود وہ سیر سپاٹے کرنے چلا گیا۔ پھر وہ تو سونے کے لیے اپنے کمرے میں چلے گئےلیکن زرینہ بیگم دونوں کو بٹھا کر دیر تک سمجھاتی رہیں کہ ہسپتالوں کے چکر میں نہ پڑو۔ پہلے زمانے میں تو گھروں میں ہی ڈلیوری ہو جایا کرتی تھی۔ میری ایک جاننے والی دائی ہےبڑی ماہر ہے۔ اور خرچہ بھی کم ہو گا۔
اتنے میں نازیہ نیچے آئی تو اس کے ہاتھ میں موبائل تھا۔ ’’امی آپ فون کیوں نہیں اٹھا رہیں۔ زینب آپی کا فون ہے۔ وہ کہ رہی ہیں ۔ ڈاکٹر شہیر کا نمبر چاہیے۔ انہیں گائنا کولوجسٹ نے تفصیلی الٹراساؤنڈ لکھ کر دیا ہے ناں۔ اس لیے۔‘‘
(جاری ہے )