مفتی محمد جمیل خانؒ - محمد زرولی خان صاحب

شیخ الحدیث والتفسیر حضرت مولانا محمد زرولی خان صاحب دامت برکاتہم

عمر یست کہ آوازِ منصور کہن شد

من از سرِ نو جلوہ دہم داد رسن را

علماء حق کا جرنیل اور اہلِ حق کے ہراول دستے کا مجاہد ِکبیر، اکابر اور اسلاف کی خدمات اور دعواتِ صالحہ کا پیکر ِ مجسم، جامعہ علوم اسلامیہ بنوری ٹاؤن کا ممتاز خریج، مقتدر فاضلِ تحریر وتقریر، محدث العالم محدث العصر علوم انور شاہ کے امین ہمارے شیخ اور استاذ حضرت اقدس مولانا محمد یوسف بنوریؒ کے خادم ِ خاص اور قافلۂ حق کے آخری سالار ِ فقہ، حدیث اور تفسیر کے صاحب ِ طرز مبصر، فقیہ اور میدان ِ سیاست کے فاتح حضرت مولانا مفتی محمود صاحبؒ کی تحریکات کا سرگرم کارکن، اپنے اساتذہ اور مشائخ کا محبوب، نامور دیوبندی عالم اور بزرگ، اور بزرگوں پر فنائیت کے درجے میں فدا اور شیدائی، اپنے اور پرائے اور ہم سب کے کام آنے والے مخدوم ِ محترم گرامیٔ قدر برادرِ عزیز حضرت مولانا مفتی محمد جمیل خان صاحب مرحوم ومغفور کے فضائل ومناقب، اطرافِ حیات، جولانیِٔ نشاط، دیگر متعلقات اور اُن کے قیمتی واقعات کو بیان نہیں کیا جاسکتا۔ برادرِ مکرم مفتی محمد جمیل خان مرحوم مجھ سے دورۂ حدیث میں چند سال آگے تھے۔ ’’فقلت الفضل للمتقدم‘‘ جس سال میں ایشیاء کے مقتدر ادارہ جامعہ علوم اسلامیہ بنوری ٹاؤن میں درجۂ خامسہ میں داخل ہوا وہ سال مفتی صاحب مرحوم کا دورۂ حدیث کا سال تھا اور وہ دورہ کے اسباق میں ایک خاص نشاط اور انبساط کے ساتھ شریک ہوتے تھے۔ حضرت اقدس فقیہ دوراں مفتیٔ اعظم پاکستان استاذِ محترم مولانا مفتی ولی حسن خان ٹونکیؒ اور فقیہ النفس، اپنے وقت کے عالمگیر بادشاہ، ہمارے مشفق اور مہربان استاذ حضرت مولانا مفتی احمد الرحمن صاحبؒ کے غیر معمولی اور خصوصی تلمیذ کے طور پر نمایاں تھے، بعد میں پتہ چلا کہ علم وادب اور عروض وفنون وغیرہ کی کتابیں شریف النسبین اور نجیب الطرفین استاذِ گرامی قدر حضرت مولانا عبد اللہ کاکاخیل مرحوم سے اُن کی خاص عنایات اور خصوصی شفقتوں سے درجۂ محبت اور عشق کی دلآویزیوں سے پڑھ چکے ہیں۔

ایک عجیب وغریب متحرک اور سرگرم فولادی عزائم اور طوفانی طریقۂ کار کے ساتھ شیخ التفسیر استاذِ محترم حضرت مولانا محمد ادریس میرٹھیؒ کے عمرہ اور حج کے اسفار میں ایسے منسلک رہتے تھے کہ شاید اس دور میں اپنی اولاد بھی اتنی جانفشانی کے ساتھ کام نہ آئے۔ حضرت اقدس فقیہ امت، مفتی اعظم حضرت مولانا مفتی محمود صاحبؒ کا جلسہ یا مجلس منعقد ہوتی تھی تو بڑے بڑے ہجوم اور اژدہاموں میں جمیل نام کا ایک ملکوتی طائر، اہلِ حق کے مزائل کے طور پر جلسوں اور مجلسوں کو آتش فشانی میں تبدیل کر نے کے لیے اکیلے پورے جلسے اور اسٹیج کو قابو کرنے میں کامیاب ہوتا تھا، وہ ہم جیسے نالائق اور نابکاراؤں کو بھی بازو سے پکڑ کر ؤگے بڑھانے میں اخلاقی سخاوت اور دریا دلی کا ایسا مظاہرہ فرماتے جس کی نظیر نہ اُن سے پہلے تھی اور نہ اُن کے بعد دیکھنے میں آسکے گی   ؎

ہر ایک باغ میں جاکر ہر ایک پھول کو دیکھا

نہ تیری سی رنگت نہ تیری سی بُو ہے

مفتی محمد جمیل خانؒ ہر تحریک کی کامیابی کی کُنجی تھی۔ عمرہ اور حج کے موسم میں اُن کی سرگرمیوں نے ایک تحریک کی شکل اختیار کی تھی۔ ایک دفعہ ہزار کوششوں کے باوجود ویزہ لگنے میں کامیابی نہ ہوئی، شام کو ملنے کے لیے مفتی صاحب مرحوم تشریف لائے اور تذکرہ سنا، صبح گیارہ اور بارہ بجے کے درمیان برادرم منصور کو ویزہ لگواکر سپرد کردیا۔ بے نظیر دور میں اہلِ حق کے خلاف غیر شرعی حکومت کے وطیروں پر مختلف دباؤ میں سے ایک دباؤ موسمِ حج میں اہل حق علماء کو حج ویزے نہ دینے کا اعلان تھا۔ برادرم مفتی محمد جمیل خانؒ نے پاکستان کے معزز اور ایک قسم کے اپنے اخبار میں ایسا اِداریہ لکھا کہ شام چار بجے کے قریب سعودی قونصل خانہ نے حکومت ِ پاکستان کی N.O.C کے بغیر اہلِ حق علماء کے نام خصوصی حج ویزے جاری کردیئے اور حکومتی مشینری دھری کی دھری رہ گئی اور یہ اعلان تمام اخبارات میں جلی عنوان کے ساتھ شائع ہوا، یہ اہلِ حق کی فتح ِ مبین تھی اور مفتی محمد جمیل خانؒ اُس کے رُوحِ رواں تھے۔

اس قسم کے ہر میدان میں اُن کے ساتھ حق تعالیٰ کی خصوصی نصرت اور اُن کے حق میں فُتوحات ِ قریبہ کے مظاہرے اتنی کثرت سے ہیں، جن کے جمع کرنے کے لیے ایک ضخیم جلد ترتیب دی جاسکتی ہے۔

مفتی محمد جمیل خانؒ بزرگوں کے لاڈلے تھے، امام ِ اہل سنت، فخرِ احناف، ترجمان ِ مسلکِ دیوبند، محقق العصر، ہمارے شیخ حضرت مولانا محمد سرفراز خان صاحب صفدرؒ کی حیات میں برادرم مفتی محمد جمیل خانؒ اُن اسفار، راحت وآرام، علوم وکمالات اور پورے پاکستان بلکہ عرب وعجم میں اُن کے فیض اور افادۂ عام کو پہنچانے میں جس طرح چابک دستی سے نمایاں ہوئے اُن سے پہلے یا اُن کے بعد اُن کا عشر ِ عشیر بھی نظر نہیں آسکا   ؎

آئی جو اُن یاد تو آتی چلی گئی

ہر نقشِ ماسوا کو مٹاتی چلی گئی

سفرِ حج میں اچانک فندق سامر کے قریب برادرم مفتی محمد جمیل خانؒ سے ملاقات ہوئی، ہم ایک سفری اُلجھن کے شکار تھے، مفتی محمد جمیل خانؒ نے سنتے ہی برادرم منصور سے کہا کہ پریشان ہونے کی ضرورت نہیں آپ میرے ساتھ چلیں۔ دوگھنٹے بعد برادرم منصور کا فون آیا کہ مفتی محمد جمیل خان صاحب تب اپنے کام کے لیے روانہ ہوئے جب ہمارا کام مکمل کر کے فارغ ہوئے، ایک دفعہ منیٰ میں ملاقات ہوئی غیر معمولی شدت اور اسرار کے ساتھ اپنے حلقے میں لے گئے اور بزرگوارم حضرت نفیس شاہ صاحب ؒ کے ساتھ زبردستی ٹھہرایا اور وہ اعزاز واکرام کرتے رہے جیسے وہ اپنے اکابر واسلاف کا کرتے رہے ہیں   ؎

اتنا ہوں تیرے تیغ کا شرمندۂ احسان

سر میرا تیرے سر کی قسم اُٹھ نہیں سکتا

عرفات میں اُن کے حلقۂ حج کی ایک گاڑی بِھیڑ اور رَش کی وجہ سے کہیں پھنس گئی، مفتی محمد جمیل خانؒ اس وقت تک تپش اور تپتی ہوئی دھوپ میں کھڑے رہے جب تک بس واپس نہیں آئی۔ عرفات میں اپنے پنڈال میں محترم ومکرم حافظ عبد القیوم نعمانی صاحب کو مامور فرمایا اور میرے متعلق حکم دیا کہ جب تک یہ موجود ہوں ان سے ہی نمازیں پڑھوائیں اور بیانات بھی کرواتے رہیں۔ سچ بات یہ ہے کہ مفتی محمد جمیل خانؒ بلند اخلاق کی ایک کائنات تھے اور علوم واعمال، کردار وگفتار کا ایک آسمان تھے، اُن کا صدمہ کسی ایک گھر کا نہیں، ایک ادارے کا نہیں اُن کے جانے سے ایک تحریک اُجڑ گئی، ایک مسلک ویران ہوگیا اور اہلِ حق کے بہت سارے سرسبز باغ خزاں پذیر ہوئے   ؎

بچھڑا وہ اس ادا سے کہ رُت ہی بدل گئی

ایک شخص سارے شہر کو ویران کر گیا

زندگی جاوید یافت ہر کہ نیک ونام زیست

کس عقبش ذکرِ خیر زندہ کند نام را