۷ ستمبر ۱۹۷۴ء ہماری تاریخ کا نہایت تابناک دن تھا۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان کی پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں نے اس دن اپنے الگ الگ اجلاسوں میں آئین میں ترمیم کا ایک تاریخی بل اتفاق رائے سے منظور کر لیا، جس کے تحت قادیانیوں کے دونوں گروپوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دے دیا گیا ۔
۷ستمبر ۱۹۷۴ء کی شام کو تمام مسلمانوں نے اپنی آنکھوں سے قومی اسمبلی میں قادیانی مسئلہ کا جو عظیم اور مبارک فیصلہ ہوتے دیکھا، یہ ہر مسلمان کے لیے خوشی کا باعث تھا۔ بجا طور پر ہر فرد ایک دوسرے کو مبارک باد دیتا تھا۔ پوری ملت اسلامیہ جسد واحد کی طرح یکجا ہو کر مسرتوں سے جھوم اٹھی۔ قادیانیت کے مورچے پر فتح مندی کے بعد امت مسلمہ اور پورے عالم اسلام میں خوشی کی ایک لہر دوڑ گئی لیکن اس عظیم فیصلے کے بعد قادیانیت کے خلاف تحریکیں چلانے والے بہت سے لوگ اس فیصلے کے بعد مطمئن ہو کر بیٹھ گئے۔ وہ یہ سمجھے کہ اب ان کی ذمہ داریاں ختم ہو گئیں، حالانکہ ایسا نہیں تھا، عملاً قادیانیت اپنی ظاہری اور پس پرد ہ سر گرمیوں کے لحاظ سے اب تک ملت اسلامیہ کے لیے ایک فتنہ بنا ہوا ہے۔ ظاہر بات ہے کہ کوئی خطرہ صرف آئین میں ترامیم سے ختم نہیں ہو سکتا۔ راقم الحروف نے مختلف فورموں پر ان خدشات کا اظہار بھی کیا اور اپنے مجلہ ’’الحق‘‘کے صفحات میں بار بار امت مسلمہ کو متوجہ کیا کہ اس فیصلے کے بعد آئین کے تمام قانونی اور ذیلی تقاضے پورے کیے بغیر قادیانیت مسلمانوں کے لیے پہلے سے زیادہ خطر ناک ثابت ہو سکتی ہے کہ اب اسے آئینی تحفظ اور غیر مسلم شہریوں کے حقوق کے پردے میں امت مسلمہ کے خلاف اپنی تمام حسرتیں نکالنے کا موقع مل سکتا ہے ۔
قومی اسمبلی میں جب قرار داد اقلیت منظور ہوئی تو راقم نے اس وقت بھی لکھا تھا کہ یہ نہایت بے بصیرتی اور عاقبت نااندیشی کی بات ہوگی کہ سانپ کو زخمی کر دینے کے بعد نہ صرف یہ کہ اسے کھلا چھوڑ دیا جائے، بلکہ اس کے زخموں کا اندمال کیا جائے۔ دشمن کے عزائم ،کردار، سرگرمیاں اور اس کی پوری تاریخ سامنے آجانے کے باوجود بھی اس کے ساتھ ایسا سلوک رواداری یا وسیع الظرفی نہیں بلکہ ملک و ملت سے غداری کہلائی جا سکتی ہے، اس لیے آئینی ترمیم کے فوراً بعد اس کے تقاضے پورے کرنا چاہیے تھے۔ اس ضمن میں خود ناچیز نے صدر ضیاء الحق سے وفاقی مجلس شوریٰ میں امتنا ع قادیانیت آرڈیننس نافذ کرانے میں بھر پور جدوجہد کی اور الحمد للہ قانون سازی کی گئی مگر اُس وقت بھی انہی خدشات اور امت مسلمہ کے مستقبل اور عالم اسلام کے درد میں کوئی بخل کیے بغیر بلا لحاظ مشرب و مسلک صاحبان علم و فضل اور مختلف مکاتب فکر کے زعماء وعلمائ، اہل قلم اور ارباب فکر کو اظہار خیال کی دعوت دی۔ اس سلسلے میں نہ حزب اقتدار اور اختلاف میں تفریق کی، نہ اپنوں اور غیروں میں۔ ہم نے پوری فراخ دلی سے کام لیا، یہاں تک کہ اس وقت کے وزیر اعظم پاکستان، وزیر قانون اور وزیر مذہبی امور تک کو بھی اظہار خیال کی دعوت دی اور ملک بھر کے جدید تعلیمی اداروں ،یونیورسٹیوں اور سیاسی جماعتوں کے سربراہوں کو ایک سوالنامہ بھیجا کہ قادیانیوں کے آئینی طور پر غیر مسلم اقلیت قرار دیے جانے کے فیصلے اور اس کے قانونی اور ذیلی تقاضوں پر اظہار خیال فرمائیں ۔ان میں سے اکثر حضرات کی سعادت مندی تھی کہ انہوں نے حتی المقدورحصہ لیا اور کثیر تعداد میں مشایح ،علماء اور مفکرین نے اپنے اپنے تاثرات بڑی فراخ دلی سے بیان فرمائے۔
سوالنامے کی چار شقیں تھیں : ۱۔آئینی فیصلہ کے بارے میں آپ کے تاثرات و خدمات؟۲۔کیا اس فیصلے کے بعد ہماری ذمہ داری ختم ہو گئی؟۳۔ملک و بیرون ملک قادیانی فتنے کے سیاسی اور دینی اثرات؟۴۔ان مہلک اثرات کے تعاقب کا طریقہ کار اور لائحہ عمل؟
ان سوالات کے جواب میں زعمائے امت نے جن تقاضوں کا ذکر کیا تھا کم وبیش چالیس سال گزرنے کے باوجود وہ آج بھی توجہ طلب ہیں اور ان کی ہر رائے آج بھی تحفظ ختم نبوت اور ردقادیانیت کے حوالے سے کام کرنے والوں کے لیے سنگ میل ثابت ہو سکتی ہے۔ راقم نے سات ستمبر یوم ختم نبوت کے حوالے سے چندچیدہ اکابر کے تاثرات سے اقتباسات لیے ہیں، جو آج کے اس تاریخی دن کی مناسبت سے پیش ہیں۔
شیخ محمد صالح القزاز (سیکرٹری رابطہ عالم اسلامی )
درحقیقت یہ اللہ کا فضل وکرم ہے کہ حق غالب ہوا اور باطل مٹ گیا۔ اس لیے کہ اس فرقے نے حرمین میں فسادبرپا کیا تھا اور اس کی گمراہ کن جھوٹی دعوت تقریباً 99 برس تک پھیلی رہی جو یورپ اور افریقہ میں بہت سے مسلمانوں کے فکری گمراہی اور کجروی کا ذریعہ بنی۔ آج ہم اس فرقہ ضالہ کی رسوائی اور اس کی ریشہ دوانیوں کی قلعی کھل جانے پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہیں اور اللہ سے امید کرتے ہیں کہ اس کے بعد اس فرقے کے قدم کہیں نہ جم سکیں گے۔ ہمیں توقع ہے کہ ہمارے مسلمان بھائی ان لوگوں کی سازشوں، خفیہ مذموم منصوبوں اور ان فریب کاریوں پر گہری نظررکھیں گے، جو یہ لوگ سچے اور حقیقی مسلمانوں کے خلاف بروئے کار لاتے رہتے ہیں۔
مولانا قاری محمد طیب ؒ (سابق مہتمم دارالعلوم دیوبند)
پاکستان کی قومی اسمبلی نے قادیانیوںکو خارج از اسلام اور انہیں غیر مسلم اقلیت قرار دینے کی جو تاریخی تجویز پاس کی ہے، یہ درحقیقت علمائے دیو بند اور برصغیر کے علمائے اسلام کے اس اقدام کی تائید اور تصویب ہے، جو آج سے 60 سال پہلے اس فرقے کی گمراہی اور خارج از اسلام ہونے کی طرف کیا گیا تھا۔
عالم اسلام کے اس متفقہ فیصلے کے بعد پاکستان کے علمائے حق اور عامۃ المسلمین مستحق مبارکباد ہیں کہ انہوں نے قادیانی فتنے کے ارتد اد کے بارے میں اپنے اور تمام مسلمانان عالم کے موقف حق کی حکومتی سطح پر تائید و توثیق حاصل کرنے میں پہل کی ہے۔ توقع ہے کہ دیگر ممالک اسلامیہ کے علماء و عامۃ المسلمین بھی فتنہ قادیانیت کے بالکلیہ انسداد کو اسلامی حمیت کے تحت ہر ممکن تقویت و تائید پہنچانے میں دریغ نہ کر کے عنداللہ ماجور اور عندالمسلمین مشکور ہوں گے۔ بلاشبہ عالم اسلام کا یہ فیصلہ اور اس کی تائید و توثیق قادیانیوں کی تلبیس کاریوں سے مسلمانان عالم کو بچانے کا ایک اہم ترین ذریعہ ثابت ہو گا، اس لیے عموماً تمام علماء اور مسلمانان ہندو پاک اور خصوصاً علمائے دیو بند اسلام کے تحفظ کے اس بین الاقوامی فیصلہ کرنے والوں کو دلی مبارکباد پیش کرتے ہیں اور دعا گو ہیں کہ اللہ تعالیٰ خاتم الانبیائﷺ کے لائے ہوئے اس آخری دین کو زیادہ سے زیادہ غیبی نصرت و تائید مرحمت فرمائے، آمین۔
اسیر مالٹامولانامحمدعزیرگل کاکاخیل ؒ
مجلس عمل نے جو کام کیا قابل صدآفرین ہے۔کام کی ابتداہوئی ختم نہیں ہوا۔ایک کام حکومت کا ہے دوسرارعایا کا رعایاکاکام تعمیل حکم مجلس عمل ہے۔
شیخ الحدیث حضرت مولانا عبدالحق صاحب ؒ (بانی دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک)
اسلام میں ختم نبوت پر یقین نہ رکھنے افراد کی حیثیت بالکل واضح اور غیر متنازعہ ہے اور پوری امت کا حضور کریم ﷺ کے زمانے سے لے کر اب تک ایسے لوگوں کے کافر اور خارج از اسلام ہونے پر اتفاق ہے۔ اسی روشنی میں مرزا غلام احمد اوران کے ہر قسم کے پیروکاروں کو بھی پوری امت مسلمہ نے خارج از اسلام قرار دیا ہے ۔
مفکر اسلام مولانا مفتی محمود صاحب ؒ
مجموعی طورپرقوم اوراس کے نمائندوں نے ایک تاریخی فیصلہ صادرفرماکردستوری طورپرمرزائیوں کے دونوں گروپوں کوخارج ازاسلام قراردیدیا۔اورانہیں پارسی، سکھ، ہندو،عیسائی، بدھسٹ ،شیڈول کاسٹ (اچھوت،چوہڑے، چماروں)کی صف میں لاکھڑا کیا۔ اوریہ طے کرلیاکہ :
(۱) جوشخص یہ عقیدہ رکھے کہ حضوراقدسﷺ کے بعد کسی شخص کوکسی قسم کی نبوت کسی شکل کسی خیال کے مطابق ملتی ہے وہ غیرمسلم ہے۔ (۲) جوشخص ایسی کسی نبوت کااپنے لیے دعویٰ کرتا ہے وہ غیرمسلم ہے۔ (۳) جوایسے مدعی نبوت کونبی مانتا ہے وہ غیرمسلم ہے۔ (۴) جوایسے مدعی نبوت کومذہبی مصلح مانتا ہے وہ غیرمسلم ہے یہ بھی طے ہوا کہ جو مرزائی منافق بن کرخود کو مسلمان کہلائے وہ ختم نبوت کے خلاف تبلیغ نہیں کرسکے گا اگرکرے گا توسزا کامستوجب ہوگا۔ جودوسال قید بامشقت تک ہوسکتی ہے۔
جومرزائی اپنے کو کافر تسلیم کرے تو وہ دستور کے مطابق اپنے مذہب کی تبلیغ قانون اور امن عامہ کے دائرہ میں کرے گا۔ اگرچہ ایسے واضح غیرمسلم شخص کی تبلیغ کا کسی پراثرپڑنے کاکوئی خاص خطرہ نہیں ہے۔ لیکن مسلمانوں کو ان فیصلوں پر خوش ہوکرغفلت نہیںبرتنی چاہئے۔ ابھی اس مسئلہ سے ذیلی مسائل بہت سے پیدا ہورہے ہیں ان کا حل بھی ضروری ہے۔ عنقریب میں اس سلسلے میںحکومت کے نمائندوں سے مل کر ان چندمسائل کے حل کو تلاش کرنیکی بھرپور کوشش کروںگا۔ اللہ توفیق دے۔بظاہرذیلی مسائل یہ ہیں:
تجاویز و مسائل: (۱) مرزائیوں کے دونوںگروپوں کے اوقاف کو حکومت اپنی تحویل میں لے۔ تاکہ اسلام کی اشاعت کے لیے لوگوں نے جو جائیدادیں وقف کی ہیں ان کی آمدنی غیراسلامی کسی مذہب کی اشاعت پر صرف نہ ہوں۔ (۲)ربوہ میںواقع سفیدزمین کومسلمانوںمیںفوراًتقسیم کرکے اسے کھلاشہر قراردینے کی عملی صورت پیداکی جائے۔ (۳) لاہوری گروہ نے انجمن بنائی ہے وہ انجمن اشاعت اسلام کے نام سے موسوم ہے اسے یہ نام قانوناًتبدیل کرناہوگا۔اس لیے کہ اب وہ اسلام کی اشاعت کاکام نہیںکررہا۔ (۴) مرزائی اپنی تبلیغ اسلام کے نام سے نہیںکرسکیںگے ان پرقانونی پابندی عائدکرنی ہوگی اس لیے کہ ان کامذہب اب قانوناًاسلام نہیںرہا۔ (۵) اسلام کے مخصوص اصطلاحات جوصرف اسلام اورمسلمانوں کے ساتھ مختص ہیں انکے استعمال سے انہیں قانوناً روکناہوگا مثلامسجد ،امیرالمؤمنین ،خلیفہ،صحابی ،ام المؤمنین وغیرہ وغیرہ۔ یہ اوراس قسم کے امورہمارے دستوری فیصلے کے لازمی نتائج ہیں جب تک ان نتائج کو بروئے کار نہیںلایاجاتا دستوری فیصلہ صرف کاغذی فیصلہ کی حیثیت اختیارکرجائے گا۔
سیدابوالاعلیٰ مودودی (بانی جماعت اسلامی پاکستان)
قرار داد میں ایک ترمیم: ۷؍ستمبرکو قومی اسمبلی نے آئینی ترمیم کے علاوہ ایک قرار داد یہ بھی منظورکی ہے کہ تعزیرات پاکستان کی دفعہ الف کے بعد دفعہ ب کا اضافہ کیا جائے جس میں درج ہو کہ::’’ایک مسلمان جو محمدﷺ کی ختم نبوت کے مفہوم مندرجہ آئین پاکستان دفعہ ۲۶۰شق نمبر۳ کے خلاف عقیدے کااعلان یا اس کے خلاف عمل یا تبلیغ کرے وہ قابل سزاوتعزیرہوگا۔‘‘
عملدرآمد کیلیے قانون سازی کی ضرورت: نیشنل اسمبلی کے فیصلے پر عملدرآمد کیلیے کچھ مزیدقانون سازی بھی بالکل ناگزیر ہے۔ مثال کے طورپرانتخابی قوانین میں ایسی ترمیم ہونی چاہیے جن کے مطابق ووٹروں کے فارم میں نام درج کراتے وقت ہر لاہوری اور ربوی مرزائی پر یہ قانونالازم قرار دیاجائے کہ وہ اپنے آپ کو غیر مسلموں کے خانے میںمرزائی درج کرے ۔
کلیدی ملازمتوں پر قبضہ کی تلافی: قادیانیوں نے سول اور بالخصوص فوجی ملازمتوں میں مسلمانوں کے حقوق پر جس طرح غاصبانہ اور نارواقبضہ کررکھا ہے اسکا تدارک اور تلافی بھی ضروری ہے۔
اختلاف سے اجتناب: قادیانیوں کے بالمقابل مسلمانوں نے جس اتحاد واتفاق کا مظاہرہ کیا ہے اسے دائما قائم رکھنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ جزوی اختلافات اگرہوں تو انہیں مناسب حدود کے اندر رہناچاہیے
تبلیغ اور دعوت کا حکیمانہ کام: قادیانیوں کی دستوری تکفیر کے بعد ایک ضروری کرنے کا کام یہ بھی ہے کہ قادیانیوں کو حکمت اور موعظہ حسنہ کے اسلوب واندازمیں قادیانیت سے تائب ہونے اور اسلام قبول کرنے کی دعوت دی جائے
صمدانی رپورٹ کی اشاعت: اس سلسلے میں ہمارا ایک مطالبہ یہ بھی مسلسل ہوناچاہیے کہ صمدانی رپورٹ کو من و عن شائع کیاجائے اور جولوگ اس رپورٹ کی رو سے مجرم ہیں ان کو کیفرکردارتک پہنچایاجائے۔ نیز جو مزیدسیاسی وانتظامی اقدامات اس رپورٹ کی روشنی میں ناگزیرہوں ان کوفورا عمل میں لایاجائے۔
مولانا ابوالحسن علی ندوی ؒ (ندوۃ العلماء لکھنو)
اس ایک فیصلہ نے افہام و تفہیم اوراطمینان قلب کی وہ خدمت انجام دی جو علماء کی سینکڑوں تصنیفات اور ہزاروں تقریریں نہ انجام دے سکتیں۔ اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ اسلام اور تبلیغ اسلام کے نام سے ’’احمدیت‘‘ کی تبلیغ کا جو کام کیا جاتا تھا‘ وہ بے اثر اور بے بنیاد ہوگیا۔
اس فیصلہ کو اثرانگیزی اور انقلاب آفرینی کے باوجود علماء کی ذمہ داری کم نہیں ہوئی‘ بلکہ بڑھ گئی مسئلہ کا فیصلہ اگرچہ حکومتی اور انتظامی سطح پر ہوگیا ‘ لیکن علمی اور فکری سطح پر ابھی اس کو مختتم کرنے کے لیے ختم نبوت کے موضوع پر بلند پایہ اور یقین آفرین سنجیدہ اورمحققانہ کتابوں اورمضامین کی ضرورت ہے۔ کم سے کم عربی‘ اردو اورانگریزی زبانوں میں اوربڑی قابل قدر ارو فاضلانہ کتابوں کی موجودگی میں جو اس وقت تک تصنیف ہوئی ہیں‘ اب بھی اس کی ضرورت ہے۔
مولانا محمدیوسف بنوری صاحبؒ (صدر مجلس عمل )
ہماری ذمہ داری ختم نہیں ہوئی بلکہ آئینی نقوش کو جب تک عملی جامہ نہ پہنایا جائے اسوقت مقصد ناتمام ہے اسلام درکتاب مسلمانان درگوروالامعاملہ ہوگا ملک کے اندرون قادیانیوںکا کچھ ردعمل ہے وہ تذبذب ہے مایوسی ہے اور زیادہ سے زیادہ گیڈر بھبکی ہے اور کچھ نہیں۔باہر کے ممالک میں حتی کہ انگلستان میں بھی اسکے اچھے اثرات مرتب ہورہے ہیں لیکن افریقہ کے ممالک میں اس آئینی فیصلہ کی اشاعت اور عام کرنے کی بڑی ضرورت باقی ہے حکومت کواپنی بین الاقوامی دامن بچانے کیلیے ضرورت ہے کہ عربی انگریزی فرانسیسی زبانوں میں اس فیصلہ کی اشاعت اپنے سفیروں کے ذریعہ تمام عالم میںکرنی چاہئے اسوقت جو کچھ حکومت کی پالیسی ہے اس میں تسامح تغافل تذبذب بلکہ ایک گونہ نفاق ہے اسلیے عملی صورت میںکوئی اقدام نہیں کیا نہ ان قیدیوں کورہاکیانہ ربوہ کو باقاعدہ تحصیل کی شکل دی ہے نہ فارغ علاقہ ان سے واپس لیا ہے ہوسکتا ہے کہ ۔۔مرکز سے زیادہ پنجاب گورنمنٹ کی دوغلی پالیسی یاطرف دارانہ پالیسی کا نتیجہ ہو بہرحال حالات اگرمایوس کن نہیں تو زیادہ امیدافزاء بھی نہیں ہیں ۔
مولانا امین حسن اصلاحی (بانی تحریک اسلامی پاکستان )
میرے نزدیک قادیانی اقلیت کے حقوق کے سزاوارتو نہیں تھے لیکن ہمارے ملک میں شرعی قوانین نافذ نہیں ہیں اس وجہ سے بالفعل مسئلہ کا ممکن حل یہی تھا۔ یہ نرم سے نرم سلوک ہے جو ان کے ساتھ کیاگیا ہے۔ اگرقادیانیوں نے اس کی قدر کی تووہ اپنے لیے اس ملک میں امن کی زندگی کی گنجائش پیدا کرلیں گے اور اگر اس رعایت سے انہوں نے غلط فائدے اٹھانے کی کوشش کی تو اس کے نتائج نہایت خطرناک ہوسکتے ہیں۔ ان خطروں کے سدباب کی واحدشکل یہ ہے کہ مسلمان برابربیداررہیں۔
مولانا محمد شفیع ؒ (مفتی اعظم پاکستان )
آج اگر حضرت انور شاہ کشمیری صاحبؒ اور انکے کا روانِ حق کے دوسرے رفقاء ہوتے تو ان کی مسرّت کا کیا عالم ہوتا؟
اس کامیابی کے بعد اہم ترین سوال یہ ہے کہ اب مسلمانوں کا لائحہ عمل کیا ہونا چاہیے؟ جو لوگ اس کامیابی کے نشے میں اس اہم سوال کو پسِ پشت ڈال دینگے یا اس کے جواب میں سنجیدگی، ہوش مندی اور اخلاصِ عمل پر کاربند نہیں ہونگے وہ اس کامیابی کے تمام اثرات پرپانی پھیردینے کے مرتکب ہونگے۔
منفی مرحلہ طے ہوا مثبت باقی ہے : سب سے پہلے یہ ہے کہ اللہ کے جو بندے راہِ حق سے بھٹک کر قادیانیت کے دام میں آئے ہوئے ہیں۔ اُنہیں انتہائی حکمت، دردمندی، دلسوزی اور پیغمبرانہ دعوت وتبلیغ کے ذریعے واپس لانے کی کوشش کی جائے۔ قادیانی مذہب کے بہت سے متبعین ایسے ہیں جنہیں یہ مذہب اپنے ماں باپ یا ماحول سے ورثے میں ملا ہے۔ اور انہیں اسکی سنگین گمراہیوں سے آگاہ ہی نہیں ہونے دیا گیا اور بہت سے لوگ ایسے ہیں جنہوں نے اس مذہب کو ایک فرقہ وارانہ مسلک سمجھا۔ کسی دنیوی مفاد کی خاطر اس مذہب کے پیروہوگئے ہیں۔ ایسے لوگوں کو ہمدردی، ملاطفت اور مخلصانہ دعوت کے ذریعہ حقیقت حال سے آگاہ کرنے اور خدا کا خوف دلانے کی ضرورت ہے۔
اگر حکمت‘ اخلاص اورسچے جذبہ دعوت کے ساتھ یہ کام کیا گیا توا للہ تعالیٰ کی ذات سے امید ہے کہ قادیانیوں کی ایک بڑی تعداد مسلمان ہوسکے گی۔
دوسری طرف حکومت کے کرنے کاکام یہ ہے کہ وہ ان لوگوں کی سرگرمیوں پر کڑی نظر رکھے، ان کی وہ رعایتیں ختم کرے جو ماضی میں انہوں نے ناجائز طور پر حاصل کی تھیں۔ ملازمتوں میں ان کی آبادی کے تناسب کو ملحوظ رکھے۔ انہیں بحیثیت مسلمان تبلیغ کرنے سے روکے اور غیر ممالک میں سفارت خانوں کے ذریعے ایسا لٹریچر تقسیم کرائے جو پارلیمنٹ کے حالیہ بل کی تشریحات پر مشتمل ہو،
مولانا عبدالقدوس ہاشمی (فاضل دیوبند )
قادیانیوں نے دشمنان اسلام کی حمایت اور اعانت سے ساری دنیا تو نہیں مگر بہت سے ملکوں میں اپنے اثرات کا زہر پھیلادیاہے۔ اب ضرورت ہے کہ ہم بھی اس زہر کا تریاق لے کر مختلف ملکوں میں پھیل جائیں اور ان کے سیاسی اور دینی زہر کا مقابلہ کریں۔ میرے خیال میں کرنے کا یہ ایک ضروری کام ہے افریقہ کے دو ملکوں کو اس تریاق کی شدید ضرورت ہے ایک نائجیریا اور دوسرامشرقی افریقہ۔ اسی طرح جنوب مشرقی ایشیاء کے دوممالک ملیشیا اور انڈونیشیا کی طرف فوری توجہ کی شدیدضرورت ہے۔
اقلیتوں کی حفاظت اور ان کے عمرانی حقوق کی صیانت کا یہ مطلب ہرگزنہیں ہوسکتا کہ ہم ان لوگوں کو کھلی چھٹی دیدیںجو نہ وطن کے وفادار ہیں اور نہ دین حق کے۔ مسلمانوں سے زیادہ اقلیتوں کے حق میں نرم اور وسیع الصدر دنیا کی کوئی دوسری قوم نہیں ہے۔ لیکن کسی اقلیت کو یہ حق نہیں دیاجاسکتا کہ وہ فتنہ اختلاف پیداکرے اور مسلمانوں کی اجتماعی طاقت کے خلاف دشمنان دین سے مل کر سازش کرتی ر ہے۔ مسلمانوں کوکسی مرحلہ پر غافل نہیں ہوناچاہیے۔ ہر وقت چوکنارہناچاہیے۔پاکستان میں قادیانیوں کے اندر تبلیغ دین کا وسیع انتظام کیاجائے بہت سے قادیانی مسلمان ہونے کو تیارہو جائیں گے ان بیچاروں کو ہفوات مرزا کی خبرنہیں ہے وہ یہ سمجھتے ہیں یہ بھی پیری مریدی کے دیگرسلسلوں کی طرح کوئی سلسلہ ہے اور جب وہ یہ جان لیں گے کہ یہ اسلام نہیں بلکہ ایک بالکل علیحدہ دین ومذہب ہے تو امید ہے کہ بہت سے تائب ہو کرایمان لے آئیں گے۔
مولانا قاضی عبدالکریم کلاچوی (فاضل دیوبند )
فیصلہ کے تقاضوں کو بروئے کارلایاجائے: میری مراد اس فیصلہ کے تقاضوں سے یہ ہے کہ اب فوری طور سے حکومتی سطح پر
(۱) ان غیر مسلموں کوکلیدی آسامیوں سے ہٹایاجائے۔ (۲) ان کے اوقاف حکومت کے قبضہ میںلے لیے جاویں۔
(۳) ان کے اسلامی نام انجمن حمایت اسلام وغیرہ قانوناً ممنوع قراردئے جاویں۔ ایک غیر مسلم کا اسلام کی حمایت کے نام سے کام کرنا پرلے درجہ کا دجل نہیں تو کیا ہے۔
(۴) اسلامی شعائر ازقسم آذان مسجد وغیرہ کا استعمال یہ غیر مسلم ہرگزنہ کرسکیں۔ (۵) اورانکے نیم فوجی تنظیمیں بلاکسی تاخیر ممنوع قراردئیے جاویں۔
تبلیغی طورپر: مرزائے قادیانی کی ننگ انسانیت زندگی کوخاص طورپرتعلیم یافتہ طبقہ میں ننگاکیاجائے اور (تجویز) عربی مدارس میںاورنہیں توبلاکسی تاخیر القادیانی والقادیانیۃ قسم کے کتابوں کوداخل نصاب کیاجائے کم از کم وفاق المدارس کے امتحان میںاسکاامتحان لازمی ہو۔ تقابل ادیان کے نام سے وفاق کے امتحان میںایک پرچہ کااضافہ ہواورجب تک کوئی مستقل کتاب اس عنوان پر شائع ہوکرشریک نصاب نہیں کرلی جاتی جس میں مرزائیت ،سبائیت، اباحیت اوراسلامی معاشی ،اقتصادی اورسیاسی نظام کے منہ آنے والے نظاموں کے اصطلاحات کومنقع کیاگیاہو ان کے دلائل کو بیان کرکے عقل ونقل سے انکے تارپورنہ بکھیرے گئے ہوں اسوقت تک صرف اس کتاب کے امتحان پر اکتفاء ہو۔
ڈاکٹر محمدحمیداللہ ؒ (فرانس )
دیندارلوگوں نے اسکے خلاف تن من دھن سے کام کیا ہے اسلیے اچھاہی ہوگاخداانہیںاجرعظیم دے۔ مگرعالم اسلامی میں دوسرے مسائل ہیںجو اس سے کم اہم نہیں بلکہ شایدیہ اہم ترہی ہیں۔ہتھیاربنانے کی جگہ مستعملہ اور فرسودہ ہتھیار خریدنے پر ہم کب تک قانع رہینگے؟ اشتراکیت والحاد کے مقابلے سے کب تک سوتے رہینگے؟
مولانا منظور احمد چینوٹی صاحب ؒ
زندگی بھر کی تمام خو شیا ں بھی اگر جمع کردی جا ئیں تو وہ اس خو شی کا مقابلہ نہیں کر سکتیں جو خو شی ۷ ستمبر کو قادیانیوں کے متعلق فیصلہ سے حا صل ہو ئی ہے احقر خوشی کے ان احساسات کو اپنے الفا ظ کے قا لب میں ڈھال کر پیش کر نے سے قاصر ہے ۔قا دیانیوں کے متعلق یہ’’تاریخی فیصلہ ‘‘ اس صدی کا اہم فیصلہ اور عظیم کا رنا مہ شمار ہو گا ۔
جب تک اس خطر ناک اورمہلک فتنہ کا با لکلیہ خا تمہ نہیں ہو جا تا مسلمانو ں کی ذمہ داری ختم نہیں ہو تی ۔لیکن اب آئین میں ترمیم ہو جانے کے بعد بنسبت عوام کے حکومت کی ذمہ داری بڑھ گئی ہے کہ وہ آئین کے تقا ضے پورے کر کے آئین کے احترام کو با قی رکھے ۔قوم نے تحریک کے دوران قا دیا نیوں کے بائیکا ٹ اور آپس میں اتحا د کا جو بے نظیر مظاہر ہ کیا ہے مجلس عمل کی سرپر ستی میں ان دو کامیا ب ’’ہتھیار وں‘‘کا استعمال ا س وقت تک جا ری رہنا چا ہئے جب تک آئینی ترمیم کے تقا ضے مکمل طو ر پو رے نہیں ہو جا تے ۔بیر ونی ممالک میں انکے تعاقب اور احتساب کے لیے ضروری ہے کہ مجلس عمل کی طر ف سے ایک مئو ثر وفد اس فیصلہ کے پس منظر اور تفصیلات کی وضاحت کر نے کے لیے فو ری طور پر دورہ کر ے ۔کیونکہ ظفراللہ اور دیگر سربرآوردہ قادیانی بیرون ملک خطر ناک اور زہر یلے پر وپیگنڈے میں مصروف ہیں اور اسکا تدارک ازحد ضروری ہے ۔
ایئرمارشل محمداصغرخان
قادیانی فتنہ یقیناملک کے اندراورباہرپھیلاہواہے لیکن اس کا مرکزی قلعہ پاکستان میں ہے اگر ترمیم شدہ قانون کی روشنی میں صحیح اورجائز اقدامات کئے جائیں تو یہ قلعہ منہدم ہوسکتا ہے اور بیرون ملک بھی اس کے اثرات بڑی حد تک زائل ہوسکتے ہیں۔ آپکاخیال درست ہے کہ آئین میں ترمیم کو اپنے منطقی انجام(Logical Conclusion)تک پہنچانابھی ضروری ہوجاتاہے۔ اس غرض کیلیے موقع ومحل کے اعتبارسے طریقۂ کاروضع کیاجاسکتاہے میں سمجھتاہوں کہ ان لوگوں کے لیے یہ کوئی مشکل کام نہیں ہے جو نظریۂ پاکستان کے علمبرداراور صرف محمدﷺ عربی ہی کے وفادارہوں۔
آخری گزارش:
اکابر اورزعماء ملت کے مذکورہ افکار و تاثرات اور گرانقدر تجاویز کے ساتھ ساتھ راقم کی رائے ہے کہ جدید تکنیکی طریقوں سے اس فتنہ کا تعاقب کیا جائے۔ خصوصاً قادیانیوں کے ٹی وی چینل جو اردو ‘ عربی اورانگریزی میں پروگرام نشرکرتے ہیں اور اپنے زہرآلود عقائد ونظریات سے امت مسلمہ میں فساد وانتشار پیدا کررہے ہیں۔لہٰذا پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا پر بھی ان کا تعاقب کرنا ہر مسلمان کا مذہبی فریضہ ہے۔وقتاً فوقتاً ان کے جدید مطبوعات (کتابوں)کا سراغ لگانا‘ ان پر تنقید لکھنا اور ان کا اصل چہرہ بے نقاب کرنا تمام اہل علم و قلم کی یکساں ذمہ داری ہے ۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو تحفظ ختم نبوت کے ادنیٰ سپاہیوں میں شامل فرمائے۔ امین۔
|