تحریر: عنبرین فاطمہ
امریکی قید میں ”ڈاکٹر عافیہ صدیقی“ کے11 سال مکمل ہونے پر ان کی والدہ ”عصمت اور اہل خانہ“ سے خصوصی گفتگو
2003ءمیں ”ڈاکٹر عافیہ صدیقی“ کے لاپتہ ہونے کی خبر جنگل میں آگ کی طرح پھیلی، عافیہ کہاں گئی کسی کو کچھ نہیں پتہ تھا۔ اس وقت کی حکومت نے اس واقعے سے لاتعلقی کا اظہار کرتے ہوئے ڈاکٹر عافیہ کے روتے بلکتے خاندان کو دلاسہ دیا کہ ہم عافیہ کو ڈھونڈ نکالیں گے۔ یوں کرتے کرتے پانچ برس گزر گئے 2008ءمیں برطانوی صحافی نے انکشاف کیا کہ بٹگرام جیل میں قیدی نمبر 650 ڈاکٹر عافیہ صدیقی ہے جس پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے جا رہے ہیں۔ یوں عافیہ کے حوالے سے مشرف حکومت کی بدنیتی سامنے آگئی۔ تمام سیاسی جماعتوں نے بڑے بڑے دعوے کئے ہیومن رائٹس کی تنظیموں نے بھی آواز بلند کی لیکن سب بے سود رہا۔ عافیہ کی رہائی کے دعوے کروانے والے مکاری و عیاری سے کام لیتے رہے اورغمزدہ خاندان کے جذبات سے کھیلتے رہے۔تمام امیدیں اس وقت دم توڑ گئیں جب امریکی عدالت نے 2010ءمیں ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو ناکردہ گناہوں کی سزا 86 سال قید کی صورت میں دی اور اس ضمن میں کی گئی اپیل بھی مسترد ہوگئی یوں ساتھ ہی تمام سیاستدانوں کے جھوٹے وعدوں کی قلعی بھی کھل گئی۔ 30 مارچ 2014ءکو ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو اپنے وطن ،اپنے خاندان اور اپنے بچوں سے دور ہوئے 11 برس کا عرصہ ہو رہا ہے۔ اس موقع پر ہم نے غمزدہ خاندان سے بات چیت کی اور پوچھا کہ 2003ءسے اب تک تیسری حکومت آچکی ہے کس حکومت کو عافیہ کے معاملے میں سنجیدہ پایا اوربہن کی رہائی کے لئے ان کا اگلا قدم کیا ہو گا۔ ڈاکٹر فوزیہ صدیقی نے کہا کہ ہمارے سیاستدانوں نے 11 برسوں سے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کے لئے مناسب اقدامات کئے ہی نہیں ہیں۔ ہرسیاسی پارٹی کے سربراہ نے ہم سب گھر والوں کو فون کالز کئے ہمارے گھر پر آئے اور تسلیاں دیں کہ آپ کی بیٹی جب تک آپ کے درمیان نہیں آجاتی ہم چین سے نہیں بیٹھیں گے۔ یوں سب نے زبانی جمع خرچ سے کام لیا۔اپنے ملک کے حکمرانوں اور سیاستدانوں سے میں یہ پوچھتی ہوں کہ ان کے خاندان کی کوئی بچی خدانخواستہ امریکی تحویل میں ہوتی تو کیا وہ وہاں اسے اس کے حال پر چھوڑ کر یہاں خاموشی سے بیٹھے رہتے۔ہمارے حکمرانوں نے جھوٹے دعوے کرتے کرتے 11 سال گزار لئے ہیں ابھی بھی مسلسل جھوٹ سے کام لے رہے ہیں۔ امریکی اٹارنی جنرل کہتے ہیں آپکی حکومت عافیہ کو واپس لانے کا مطالبہ ہمارے سامنے رکھتی ہی نہیں جبکہ ہماری حکومت دعویٰ کرتی ہے کہ ہم نے امریکہ سے عافیہ کے معاملے میں دو ٹوک بات کر لی ہے اب پتہ نہیں کون سچ بول رہا ہے ۔ مشرف دور کی بات کریں تو اس کے دور میں پاکستانی عوام پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے گئے۔پاکستانیوں کو پیسوں کی لالچ میں امریکہ کے ہاتھوں فروخت کیا گیا اور ڈھٹائی سے اس گناہ پر پردہ بھی ڈالا جاتا رہا۔میر ظفر اللہ خان جمالی اور قاضی حسین احمد نے ہمیں عافیہ کے حوالے سے تسلی دی اور کہا کہ ہم جنرل مشرف سے بات کریں گے۔ میر ظفر اللہ خان جمالی نے مشرف سے جب ڈاکٹر عافیہ کے کیس پر بات کی تو انہوں نے کہا اس کیس پر مجھ سے بالکل بات نہ کی جائے۔ یہ بات خود مجھے میر ظفر اللہ جمالی نے بتائی۔ 2003ءسے 2008ءتک ہم پریشان حال رہے لیکن عافیہ کا کہیں کچھ نہ پتہ چل سکا۔ برطانوی صحافی نے انکشاف کیا کہ بٹگرام جیل میں قیدی نمبر 650 ڈاکٹر عافیہ صدیقی ہے۔ اس کے بعد عمران خان نے پریس کانفرنس کی ہیومن رائٹس کی تنظیموں کا الحاق بنا کہ ہمیں قیدی نمبر 650 دکھائی جائے بتایا جائے کہ عافیہ کو وہاں کیوں رکھا گیا ہے۔ یوں تحریک نے سر اٹھایا اس تحریک سے خائف کچھ لوگوں نے میری امی کو دھمکیاں دیں کہ اگر تم نے قدم پیچھے نہ ہٹایا تو پہلے ایک بیٹی کو روتی ہو پھر دونوں بیٹیوں کو رو گی۔ مجھے بھی فون کالز اور ایس ایم ایس موصول ہوئے ،دھمکیاں ملیں۔ کئی لوگوں نے ہمدرد بن کر ہمیںپیچھے ہٹنے کو کہا۔ میری والدہ سے میں نے کہا امی اگر میری زندگی ہے تو مجھے کوئی کچھ نہیں کر سکتا اس لئے آپ نے کسی موقع پر ہمت اور حوصلے کا دامن نہیں چھوڑنا اور میرے لئے دعا کرنی ہے کہ میں اپنی بہن کی رہائی کے حوالے سے ثابت قدم رہوں۔ اسی دور میںلوگ مشرف کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے مشرف کے غلط فیصلوں نے ملک کو تباہی کے دہانے پر لاکھڑا کیاتھا جب اس کے خلاف تحریک اٹھ کھڑی ہوئی تو آمر کو ملک چھوڑ کر اپنی جان بچا کر بھاگنا پڑایوں آمر کا دور اختتام پذیر ہوا۔ نئی حکومت پاکستان پیپلز پارٹی کی بنی اس دور حکومت میں ہمیں عافیہ کا بیٹا احمد ملا ابھی ایک سال بھی نہیں گزرا تھا کہ مریم مل گئی۔ یہ وہ دور تھا جب ڈاکٹر عافیہ صدیقی پر امریکی عدالت میں مقدمہ چلا۔ حسین حقانی نے عافیہ کے دفاع کے لئے حکومت سے 2 ملین ڈالرز لئے جبکہ امریکی گورنمنٹ کہتی ہے کہ عافیہ کے وکیلوں کے پیسے ہم نے ادا کئے۔حسین حقانی نے جو پیسے لئے پتہ نہیں وہ کس کی جیب میں گئے۔ اس مقدمے کے نتیجے میں عافیہ کو 2010ءمیں 86 سال کی سزا سنا دی گئی۔ وہ سزا کس جرم کی پاداش میں ہوئی آج تک کسی کو کچھ پتہ نہیں۔ سزا کے بعد سیاسی جماعتوں نے اپنی سیاست چمکانے کے لئے ایک مرتبہ پھر دکھاوے کا عہد کیا۔ پھر حکومت نے کہاکہ ہم اس فیصلے کے خلاف امریکی عدالتوں میں اپیل کریں گے۔ اپیل کی گئی لیکن کچھ نہ بن سکا ہم نے کہا کہ ہم عافیہ کے لئے اپنا وکیل وہاں بھیجنا چاہتے ہیں لیکن امریکی جج نے اجازت نہ دی۔ سال 2012ءمیں امریکی اٹارنی جنرل پاکستان آیا اور ہم سے کہاکہ میں ایک تجویز لیکر آیا ہوں اگر زرداری اس پر دستخط کر دیں تو عافیہ اپنی باقی کی سزا پاکستان میں کاٹ سکتی ہے۔ ہم اس تجویز کو لیکر بھی راضی ہو گئے اور امید ظاہر کی کہ آصف علی زرداری اس پر دستخط کر دیں گے لیکن انہوں نے دستخط نہیں کئے صرف رحمان ملک نے کئے۔ اس بعد نگران حکومت میںاحمد بلال صوفی وزیر قانون بنے انہوں نے کہا کہ ہم ایسے معاہدے کریں گے جو قانوناً اتنے مضبوط ہوں گے کہ عافیہ کی واپسی ممکن ہو جائے گی۔ اس کے بعد 2013ءمیں نواز حکومت آئی تو انہوں نے کہا کہ عافیہ صدیقی کی رہائی کے لئے ہم نے دو معاہدوں پر دستخط کر دیئے ہیں بس عافیہ کا پاکستان آنا اب زیادہ دور نہیں ہے ہم نے تقریباً 6 ماہ انتظار کرنے بعد دسمبر 2013ءمیں تحریک چلانے کا اعلان کیا تو چودھری نثار علی خان کا ہمیں فون آیا کہ یہ سال نہیں گزرے گا کہ عافیہ وطن واپس آجائے گی۔ وہ سال بھی گزر گیا نیا سال آگیا ہے لیکن عافیہ نہیں لائی گئی۔ حکومت ہمیں کھل کر کیوں نہیں بتاتی کہ آخر رکاوٹ کیا ہے کیوں ہم سے جھوٹ پر جھوٹ بولے جا رہے ہیں۔ اب ہم پوری دنیا میں عافیہ کی رہائی کے لئے تحریک چلانے جا رہے ہیں ہیومن رائٹس کے 40 ادارے اور ایمنسٹی انٹرنیشنل ہمارا ساتھ دے رہی ہے ہم عافیہ کی رہائی کے معاملے کو اقوام متحدہ کے لیول پر اٹھا رہے ہیں۔ 30 مارچ کو دستخط مہم کا آغاز ہو رہا ہے تمام سیاسی جماعتوں نے ایک لمبے بینر پر دستخط ثبت کرنے ہیں۔ اس کے بعد ہم اس بینر کو پرائم منسٹر ہا¶س میں لیکر جائیں گے پوری دنیا میں یہ تحریک سر اٹھائے گی اور تب تک ہم چین سے نہیں بیٹھیں گے جب تک کہ قوم کی بیٹی کی رہائی ممکن نہیں ہو جاتی۔ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے بچوں کے حوالے سے بات کرتے ہوئے ڈاکٹر فوزیہ صدیقی نے کہاکہ احمد اور مریم شدید ڈپریشن کا شکار ہیں بس ہر وقت ایک ہی سوال کرتے ہیں کہ امی کو گھر آنے میں اور کتنے سال لگیں گے۔ان بچوں کا دل بہلانے کے لئے مجھے حیلوں بہانوں کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ مجھے اپنی بہن کی شکل دیکھے ہوئے 12 سال بیت چکے ہیں۔ ایک سوال کے جواب میں ڈاکٹر فوزیہ صدیقی نے کہا کہ کبھی کبھار ڈاکٹر عافیہ صدیقی کا فون آتا ہے میری والدہ بیٹی کے فون کے انتظار میں سوتی نہیں کہ کہیں میری بیٹی کا فون آکر چلا نہ جائے۔ 2012ءتک عافیہ کا جب بھی فون آتا تھا وہ بہت اچھے طریقے سے بات کرتی تھی۔ امی کو اورمجھے تسلیاں دیتی تھی کہ ہم پر یہ مشکل وقت ہے گزر جائے گا آپ لوگوں نے ہمت سے کام لینا ہے۔ امی روتی تھی تو عافیہ کہتی تھی آپ نے ہمت ہاری تو میں یہاں ٹوٹ جا¶ں گی۔ جیسے ہی عافیہ اس قسم کی بات بتاتی کہ امی مجھے رات سوتے میں مارا گیاتو اس کا فون کاٹ دیا جاتا۔ میں نے بہت کوششیں کرکے دیکھ لی ہیںمجھے اپنی بہن سے ملنے کی اجازت نہیں دی جاتی ہے۔میری بہن نے ہمت اور حوصلے کے ساتھ تمام تکلیفوں کو برداشت کرکے مسلمانوں کا سر فخر سے بلند کر دیا ہے۔جس وقت عافیہ کو گرفتار کیا گیا اس وقت ان کی عمر تقریباً 30برس تھی وہ ایک خوش رہنے والی ملنسار اور درد دل رکھنے والی شوخ و چنچل لڑکی تھی جس کو امریکہ نے دوران حراست اپنے ظلم و ستم سے ایک بت کی مانند بنا دیا ہے۔
ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی والدہ ”عصمت“ سے جب ہم نے بات کی تو وہ زار و قطار رونے لگیں اور کہنے لگیں میرا کلیجہ پھٹتا ہے یہ سوچ کر کہ میری بیٹی کتنی مشکلیں سہہ رہی ہے۔ انہوں نے کہاکہ ایک ہفتہ پہلے جب میری بات عافیہ سے ہوئی تو وہ پہلے کی طرح بات نہیں کر رہی تھی اس کے لہجے میں بہت مایوسی تھی۔ مجھے کہنے لگی پوری دنیا میں مسلمان بستے ہیں کیا ان میں 2 لوگ بھی ایسے نہیں ہیں جو محمد بن قاسم کا کردار ادا کر سکیں مجھے بے گناہی کی بھیانک سزا سے نکال سکیں۔ اس نے جب مایوس لہجے میں یہ بات کہی تو میرے دل کی دیواریں ہل کر رہ گئیں۔ عافیہ کی جب بھی مجھے کال آتی ہے قرآن کی آیات سناتی اور تسلیاں دیتی ہے۔ حضور کی زیارت کے قصے سناتی ہے۔ ”عصمت“ نے کہا کہ میری بیٹی کا یہ خواب تھا کہ پاکستان کا نظام تعلیم دنیا کا بہترین نظام تعلیم بن جائے تاکہ ہمارے بچوں کو باہر جا کر پڑھنے کی ضرورت پیش نہ آئے بلکہ باہر سے طالب علم یہاں پڑھنے کے لئے آئیں۔ انہوں نے کہا کہ عافیہ اپنے ملکی نصاب سے بھی خاصی نالاں تھی اس نے 10 سال کا سٹڈی پروگرام تریتب دیا تھا اس نصاب کو اگر تعلیمی اداروں میں لاگو کر دیا جاتا تو انقلاب آسکتا تھا۔میں نے پوچھا کہ تم نے جو نصاب تیار کیا ہے اس میں اسلامیات کا مضمون کہاں ہے وہ کیوں نہیں رکھا،تو کہنے لگی اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے اور ہمارے ہاں اسکو الگ مضمون کے طور پر پڑھایا جا رہا ہے۔ اسلامی تعلیمات ہر مضمون میں ہونی چاہئے۔ عافیہ کہتی تھی کہ جدید تحقیقات پر نہ جائیں ان کی جڑیں اسلام میں ملتی ہیں اور ہمارے سائنس دان کئی سال پہلے ان کی بنیاد رکھ چکے ہیں۔ عافیہ نے تعلیمی نظام بہتر بنانے کے لئے جو نصاب تیار کیا تھا۔ اس کا ایک پلندہ میاں محمد نواز شریف کو بھی ارسال کیا تھا۔ عافیہ کے اس پلان کے بارے میں امریکہ میں جب پروفیسرز اور تعلیمی اداروں کو پتہ چلا تو انہوں نے بہت سراہا اور کہا کہ یہ پلان واقعی پاکستان کے تعلیمی نظام کو بدل کر رکھ دے گا۔ جو لوگ نہیں چاہتے تھے کہ عافیہ اپنے منصوبے کو پایا تکمیل تک پہنچائے۔ انہوں نے اس کے خلاف سازش رچی اور آج وہ ناکردہ گناہوں کی سزا بھگت رہی ہے۔ عصمت نے کہا کہ عافیہ کی رہائی کے لئے ہمارے حکمرانوں نے مجھے ایسے ایسے خواب دکھائے کیا کہوں۔ میں حکومت وقت سے اپیل کرتی ہوں کہ وہ عافیہ کو اپنی بیٹی سمجھیں اور اسکی رہائی کے لئے سنجیدہ اقدامات کرے۔ ایک سوال کے جواب میں عصمت نے کہاکہ عافیہ کی بیٹی مریم اپنی والدہ کی طرح ذہین ہے اکثر میں اسکو مریم کہنے کی بجائے عافیہ پکارتی ہوں۔ فوزیہ نے خالہ نہیں ماں بن کر بچوں کی دیکھ بھال کی ہے۔ کبھی کسی ماں کے ساتھ ایسا نہ ہو جیسا میرے ساتھ ہوا ہے۔
عافیہ صدیقی کے بچوں”احمد اور مریم“ سے جب ہم نے بات کی تو انہوں نے کہا کہ ہم بہت دعا کرتے ہیں کہ ہماری ماں جلد سے جلد ہمارے درمیان آجائیں۔جب صبح کو ہم دیکھتے ہیں کہ سکول میں بچوں کی مائیں ان کو چھوڑنے آتی ہیں تو ہمارا بھی دل کرتا ہے کہ کاش ہماری ماں بھی ایسے ہی ہمیں سکول چھوڑنے آتی۔خالہ اور نانی بہت پیار کرتی ہیں لیکن امی کی یاد ہر وقت ستاتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
معروف سماجی کارکن ”فرزانہ باری“ نے کہا کہ عافیہ صدیقی پاکستانی نہیں امریکی شہری ہے لہذا اس پر جو بھی الزام لگا اس کے مطابق وہاں کی کورٹس میں ٹرائل ہوا اور سزا بھی ہوئی۔ایک خاتون پاکستانی شہری ہی نہیں ہے تو پھر کیوں اس کےلئے پاکستانی حکومت کوئی سٹینڈ لیتی میرے حساب سے ہمارا عافیہ کے کیس سے کوئی لینا دینا نہیں ہے ہاں انسانی ہمدردی کے نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو امریکی جیل میں عافیہ کے ساتھ جو سلوک ہوا یا ہو رہا ہے اس کی ہم مذمت کرتے ہیں باقی اس کیس سے ہمارا کوئی تعلق نہیں ہے۔میں نے خود ریسرچ کی ہے اس کے مطابق نظر آتا ہے کہ عافیہ صدیقی کا تعلق القاعدہ اور طالبان سے رہا ہے حتیٰ کہ عافیہ نے شادی بھی القاعدہ کے ایک بندے سے کی۔جو ہمارا شہری ہی نہیں اس کےلئے ہمیں اپنی حکومتوں کو پریشرائز نہیں کرنا چاہیے۔لیکن ایک بات جو بہت اہم ہے کہ عافیہ امریکہ کی شہری تھیں انہوں نے اپنی مرضی سے امریکہ کی شہریت اختیا ر کی اور جب انہوں نے وہاں کی شہریت اختیار کی تو یقیناً و ہ امریکہ کے قوانین اور قواعدو ضوابط کے تحت زندگی گزارنے کی پابند ٹھہریں ۔سو اگر اس طرح سے دیکھا جائے تو ڈاکٹر عافیہ امریکی قوانین کی ذد میں آئیں۔یہاں یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ جب وہ ہے ہی امریکہ کی شہری تو پاکستان کیسے امریکی قوانین پر اپنی مرضی سے اپنی خواہشات کا اطلاق کروا سکتا ہے۔
”جسٹس (ر)ناصرہ جاوید اقبال“ نے کہا کہ عالمی برادری میں ملکوں کے درمیان ہونے والے معاہدات اور مختلف اوقات میں اقوام متحدہ کے منظور کردہ کنونشنوں کے مطابق ایک دوسرے کے ملکوں کے شہریوں کے تبادلے کے سلسلے میں قوانین پرعمل کیا جاتا ہے۔معاہدات اورقوانین ملکوں کے درمیان معاملات کو طے کرنے کےلئے بنائے جاتے ہیں اور دیکھا جائے تو یہ معاہدات اورقوانین ہی ہیں جو ملکوں کے درمیان آپس کے تنازعات کو دور کرنے میں مدد دیتے ہیں۔لیکن عافیہ صدیقی کےلئے توقومی اور بین الاقوامی کوئی بھی قانون کار گر ثابت نہ ہو سکااور وہ جیل کی سلاخوں کے پیچھے پڑی ہے اور جس طریقے سے اسے گرفتار کر کے پاکستان سے لیجایا گیا اور عقوبت خانے میں تشدد کا نشانہ بنایا جاتا رہا یہ سب کچھ بجائے خود اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے چارٹر کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے۔اس وقت امریکہ سپر پاور ہے اس کو کسی قانون کی نہ ضرورت ہے اور نہ ہی وہ کسی معاہدے کا پابند ہے۔پاکستان امریکہ کے ہاتھ کی کٹھ پتلی ہے وہ ہم سے جو مطالبہ کرے ہم اس کو پورا کرنے کے پابند ہیں کیونکہ ہم نے غلامی کی زنجیریں اپنے گلے میں ڈال رکھی ہیں۔ ہم میں تواتنی ہمت نہیں کہ اپنے ہی ملک میں ڈرون حملوں کے نتیجے میں آئے روز ہونے والی ہلاکتوںکو روکنے کے لئے امریکہ کے آگے ڈٹ کر کھڑے ہوجائیں تو عافیہ صدیقی کو مشکلات کے بھنور سے نکالنے کے لئے ہم کیا کریں گے، جب اس وقت ہمارے اپنے حکمرانوںنے ڈالرز کے عوض عافیہ کو امریکیوں کے حوالے کر دیا تو پھر غیروں سے کیا گلہ۔مشرف اپنی خود نوشت میں یہ اعتراف کر چکا ہے کہ وہ پاکستانیوں کو گرفتار کر کے امریکی خفیہ ایجنسیوں کے حوالے کرتا رہا ہے اور اسے ہر شخص کے بدلے ڈالر ملتے تھے۔میں سمجھتی ہوں کہ امریکہ پوری دنیا پر مسلط ہے اس کو کچھ بھی کرنے کے لئے کسی سے اجازت لینے یا کسی معاہدے کی پاسداری کرنے کی ضرورت نہیں۔گوانتا نامو بے میں قیدیوں کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے وہ انسانیت کے خلاف ہے امریکہ نے ایک نہیں کئی مرتبہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی کی انسانی حقوق کا علمبردار امریکہ ڈھونگی ہے اور قوانین کا استعمال کرنے کے لئے جب چاہیے کسی بھی قانون کا رخ اپنی طرف موڑ لیتا ہے اس سے کیا توقع کیا جا سکتی ہے ۔شرم تو اپنے حکمرانوں کو آنی چاہیے جو چند ڈالرز کے عوض اپنے شہریوں کو دوسروں کے ہاتھوں فروخت کر دیتے ہیں۔پاکستانی حکومتوں نے لمحہ بہ لمحہ کیس کو بگاڑا۔سفارتی سطح پر اگر اس معاملے کو حل کروانے کے لئے اچھی نیت سے اقدام کئے جاتے تو کوئی وجہ نہ تھی کہ آج ڈاکٹر عافیہ کی زندگی امریکی جیلوں کی نظر ہوتی۔