رکن کی درجہ بندی: 5 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Active
 

امریکی سینیٹ کی رپوٹ میں سی آئی اے کی طرف سے قیدیوں پر غیر انسانی تشدّد کے اعتراف نے امریکہ کے مکروہ چہرے پر پڑے انسان دوستی کے سنہرے نقاب کو ایک بار پھر نوچ پھینکا ہے ،میں ایک سال قبل جب افغانستان کے صوبہ پروان گیا تو وہاں بگرام جیل کے ایک قیدی سے ملاقات ہوئی تھی ،55سالہ افغان بزرگ سہراب خان نے پانچ سال بگرام جیل میں جرم بے گناہی کی سزا کاٹی ہے

گفتگو کے دوران سہراب خان نے اپنی گرفتاری اور قید کے واقعات کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ وہ 2003 میں اپنی گاڑی میں کابل کی طرف جا رہا تھا کہ اچانک اس کے قریب چار فوجی گاڑیاں آکر رکیں جن میں سی آئی اے کے اہل کار سوار تھے،انہوں نے کوئی بات کئے بغیر اسے اٹھا کر گاڑی میں پھینکا اور لے جاکر بگرام جیل کی ایک بیرک میں ڈال دیا ،بعد میں پتا چلا کہ وہ کسی غلط فہمی کی بنیاد پر اسے طالبان کا مخبر یا جاسوس سمجھ رہے ہیں ،سہراب خان نے بتایا کہ جس وقت اسے بگرام جیل میں ڈالا گیا اس وقت وہاں صرف دو بلاک تھے جن کا نام مین فلور اور کیسپین تھا ان دو بلاکوں میں 500 قیدی رکھنے کی گنجائش تھی لیکن بھیڑ بکریوں کی طرح یہاں 800 قیدیوں کو ٹھونسا گیا تھا ،ان میں اکثروہ بے گناہ افغان تھے جن کو طالبان سے تعلق ،تعاون یا ہمدردی رکھنے کے شبہے میں یہاں لایا گیا تھا ،سہراب نے بتایا کہ روزانہ درجنوں نئے قیدی یہاں لائے جاتے تھے جس کی وجہ سے جگہ کافی کم پڑھ گئی تھی بعد میں نئے قیدیوں کے لئے نئے بلاک تعمیر کئے گئے ،اس کے علاوہ خصوصی قیدیوں کے لئےالگ کوٹھڑیاں اور سیل بنائے گئے تھے ،جن میں یورپ عرب ممالک اور پاکستان سے تعلق رکھنے والے طالبان اور القاعدہ ممبران کو بند کیا جاتا،سہراب خان نے بتایا کہ ایک خصوصی سیل میں پاکستان کی شہری عافیہ صدیقی کو بھی 2003 میں لا کر بند کیا گیا تھا جو پوری جیل میں واحد خاتون قیدی تھی ،اس نے بتایا کہ مختلف مواقع پر اس کی چار دفعہ عافیہ صدیقی سے مختصر ملاقاتیں ہوئیں اور اس نے انہیں دلاسا دیا تھا ،سہراب نے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے ساتھ سی آئی اے کے سلوک کی کچھ باتین بتائیں تو میرے دماغ کی نسیں کھنچ گئیں اور میرا بلڈ پریشر خطرناک حد تک ہائی ہو گیا ، اخبارات اور ٹی وی چینلزکی خبروں ،تجزیوں ،تبصروں ،کالموں ، تحقیقاتی رپوٹس اور فیچرزمیں داکٹر عافیہ صدیقی کے متعلق بہت کچھ پڑھا تھا لیکن آج ایک ایسے انسان کے منہ سے عافیہ صدیقی کے ساتھ بگرام جیل میں پیش آنے والے واقعات سن رہا تھاجو ان سب کا عینی شاہد تھا کئی باتیں سن کر میری آنکھیں نم ہوئیں اور کئی باتوں نے میری روح کو گھا ئل کر دیا ،ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو ان حالات سے دو چار کرنے والا کوئی پرایا نہیں تھا بلکہ اپنا ہی حکمران تھا ، جو خود کو بڑے فخر سے سید بھی کہتا ہے چند ٹکوں کی خاطر ڈاکٹر عافیہ سمیت ایک ہزار کے قریب مسلمانوں کا امریکا کے سودا کرنے والے ڈکٹیٹر پرویز مشرف کو تاریخ کبھی معاف نہیں کرے گی ۔

ڈاکٹر عافیہ سے متعلق میرے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے سہراب خان نے بتایا کہ 2005 ء میں امریکا سے کچھ فوجی آئے تھے جو عافیہ صدیقی کو ہیلی کاپٹر پر کہیں لے گئے تین دن بعد جب اس کو واپس لایا گیا تو وہ اپنے قدموں پر نہیں بلکہ اسٹریچر پر تھی ہمیں پتا چلا کہ کہ اس کو کراچی سے آگے کھلے بین الاقوامی سمندر میں کھڑے امریکن بحری بیڑے پر لے جایا گیا تھا جہاں معلوما ت لینے کے لئے اس پر بدترین تشدد کیا گیا ، رات کے سناٹے میں اس کی دردناک چیخیں سن کر سارے قیدی روتے تھے ،سہراب نے ایک اور آنکھوں دیکھا واقعہ سناتے ہوئے کہا ،ایک دفعہ عافیہ بلند آواز سے قرآن کریم کی تلاوت کر رہی تھی ایک امریکن فوجی عورت نے اسے تلاوت سے منع کیا لیکن اس نے تلاوت جاری رکھی غصے میں آکر اس فوجی عورت نے عافیہ صدیقی کو ایک کرسی پر بٹھا کر اس کے دونوں ہاتھ پیچھے کی طرف باندھ دیئےاور پھر اس بدبخت عورت نے زبردستی عافیہ کا منہ کھول کر شراب ڈالی اس فوجی عورت کی شرمناک حرکت پر تمام تمام قیدیوں نے شام کے کھانے کی ہڑتال کر دی اس بات کا جب جیل کے ایک سینئر افسر کو پتا چلا تو اس نے اس فوجی عورت کو بگرام جیل سے ٹرانسفر کرنے کا اعلان کر دیا جس کے بعد قیدیوں نے ہڑتال ختم کی،سہراب خان کی زبانی یہ واقعہ سن کر مجھے اپنے آنسوؤں پر اختیار نہ رہا اس نے بتایا جنوری کی سخت سردی میں ایک دن صبح سویرے عافیہ صدیقی کو جیل کے درمیان میں موجود گراؤنڈ میں لایا گیا ،عافیہ کے جسم پر قیدیوں کی سنگل وردی تھی جبکہ اس کے پاؤں ننگے تھے جن میں زنجیریں تھیں اس کے پاس کھڑے تمام سی آئی اے اہلکاروں نے لانگ بوٹ ،موٹے کوٹ اور سر پر گرم ٹوپیاں پہن رکھی تھیں ،سہراب خان نے بتایا کہ گراؤنڈ ہماری بیرک کے سامنے تھا ہم سب قیدی پریشان ہو گئے کہ معلوم نہیں یہ ظالم ہماری بہن کے ساتھ کیا ظلم کرنے والے ہیں سہراب نے بتایا اس وقت تک سورج نہیں نکلا تھا اور ہر طرف دھند چھائی ہوئی تھی ،گرم کپڑوں اور بیرک کی چار دیواری کے باوجود سردی سے ہمارے جسم بری طرح ٹھٹھر رہے تھے اتنی خوفناک سردی میں ہماری آنکھوں کے سامنے دو امریکی فوجیوں نے ٹھنڈے پانی کی کی بھری ہوئی بالٹیاں لا کر عافیہ صدیقی کے سر پر الٹ دیں ،جس سے اس کے منہ سے ازیت اور کرب بھری چیخیں نکلیں اس کے بعد ایک فوجی نے ان کی کمر پر بندوق کا بٹ مار تے ہوئے گراؤنڈ کا چکر لگانے کا حکم دیا ،وہ مشکل سے کھڑی ہو کر دو قدم چلی پھر پیروں میں پڑی زنجیروں کی وجہ سے زمیں پر گر گئی ،یہپ انسانی حقوق اور عورتوں کے حقوق کے علمبردار امریکا کا اصل چہرہ ہے ان زلیل امریکی فوجیوں کو ایک نہتی اور بندھی ہوئی عورت پر ظلم کے پہاڑ توڑتے ہوئے ذرا ترس نہیں آیا بلکہ اس فوجی نے زمیں پر کیچڑ میں لت پت عافیہ کی ٹانگوں پر زور سے ایک اور رائفل کا بٹ مارا جس سے عافیہ کے منہ سے پھر چیخیں بلند ہوئیں اور اس نے ایک بار پھر اٹھ کر چلنے کی کوشش کی ،سہراب نے بتایا کہ اس دن دو گھنٹے تک وہ ظالم امریکی وحشی درندے ڈاکٹر عافیہ کے ساتھ یہ ظلم کرتے رہے اور ہم سب بے بسی سے سلاخوں کے پیچھے سے یہ دردناک منظر دیکھتے رہے،سہراب خان نے بتایا کہ 2005 میں بگرام جیل میں دو نئے بلاک تعمیر ہوئے تو ہمیں وہاں شفٹ کر دیا گیا جس کے بعد میں نے عافیہ صدیقی کو پھر کبھی نہیں دیکھا ،ایک عینی شاہد سے اپنی بہن عافیہ صدیقی کے اُپر ہونے والے مظالم کی چند جھلکیاں جان کر میرے تو رونگٹے کھڑے ہو گئے ،بے شمار دولت جدید ترین اسلحہ اور انتہائی تربیت یافتہ فوج ہونے کے باوجود امریکا کی افغانستان میں شکست کی یہی سب سے بڑی وجہ ہے کہ اس نے ہر قدم پر نفرت کے بیچ بوئے،افغانستان کے ہسپتالوں ،بھری پُری آبادیوں ،مساجد مدارس پر کارپٹ بمباری کرنےکے ساتھ بگرام اور گونتا نا مو بے جیسے قید خانوں میں بے گناہ مسلمانوں پر غیر انسانی تشدد کر کے ان کے دلوں سے امریکا کے ساتھ ہمدردی یا نرمی کا آخری قطرہ نچوڑ لیا ، اب افغانستان کا ہر بچہ ،بوڑھا ،جوان ،مردو عورت اگر دنیا کی کسی قوم یا ملک سے شدیدترین نفرت کرتے ہیں تو وہ صرف اور صرف امریکا ہے ۔