پُکار
مفتی ڈاکٹر رشید احمد خورشید
حصہ اول
ہمارا معاشرہ "
اسلام دین اعتدال ہے/ تھوڑا، بروقت اور پابند ی کے ساتھ/ کام، کام اور بس کام مجھے بارہا اس بات کا تجربہ ہوا کہ جب میں تخصص کے طلبہ کو پڑھانا شروع کرتا ہوں تو ان کو بہت سی چیزیں نئی محسوس ہوتی ہیں اور بڑی دلچسپی سے سننے لگتے ہیں۔ پہلے دن تو بڑی حیرت اور تعجب بھری نگاہوں سے دیکھتے ہیں، لیکن جب دو تین دن میں کچھ مانوسیت ہوجاتی ہے تو پھر شوق کی موجیں جوش مارنے لگتی ہیں اور بہت سارے طلبہ مطالبہ کرنے لگتے ہیں کہ فلاں چیز بھی پڑھادیں اور اس کورس میں فلاں چیز بھی ہم پڑھنا چاہتے ہیں تو میں ان کو اس طرح کے مواقع پر یہ جواب دیاکرتا ہوں
کہ حدیث شریف کے اندر حضور سروردوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ”اِکلَفُوا مِنَ العَمَلِ مَا تُطِیقُونَ فَإِنَّ خَیرَ العَمَلِ أَدوَمُہٗ وَإِن قَلَّ“ (مسند احمد-الرسالۃ 254/14) یعنی اتنا کام کرو جتنا پابندی کے ساتھ کرسکو، اس لیے کہ بہترین عمل اللہ کی نظر میں وہ عمل ہے جو پابندی کے ساتھ کیاجائے اگر چہ تھوڑا ہی کیوں نہ ہو۔“ چنانچہ اگر آدمی ایک دن ظہر کی نماز ایک گھنٹے میں پڑھے اور دوسرے دن پڑھے ہی نہیں، اس سے بہتر ہے کہ روزانہ ظہر کی نماز پندرہ منٹ میں پڑھ لے۔
ہمارے معاشرے میں بے سکونی اور جسمانی و روحانی امراض کی کثرت کی ایک بہت بڑی وجہ یہ ہے کہ ہمارے کاموں میں بے اعتدالی انتہا درجے کی پائی جاتی ہے۔ جب کسی کام میں لگتے ہیں تو پوری طرح یوں لگتے ہیں کہ باقی سب کچھ ہماری نظر میں فضول، بے کار اور وقت کا ضیاع قرار پاتا ہے اور جب چھوڑتے ہیں تو یوں کنارہ کش ہوتے ہیں کہ اس کے قریب پھٹکنے والے کو بھی ترچھی نظروں سے گھور گھورکردیکھتے ہیں۔دین و دنیا کے جتنے کام اور مشغلے ہیں شریعت اسلامیہ سب میں اعتدا ل اور میانہ روی کا حکم دیتی ہے اور یہ ایک ایسا جامع حکم ہے جو زندگی کے ہرشعبے کا احاطہ کرتا ہے۔زندگی کے ہر لمحے میں ہمیں شریعت کا یہ درس یاد رکھنے کی ضرورت ہے اور اگر ہم یہ ضرورت محسوس کرکے اس کو حرز جاں بناکر ہر وقت پیش نظر رکھیں گے تو یہ بات یقین کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ ہمارے معاشرے کی بے چینی، امراض اور بہت ساری منفی چیزوں کا باآسانی خاتمہ کیاجاسکتا ہے۔
دنیا کے کاموں میں ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ہم لوگ بے اعتدالی کرتے ہیں اور افراط وتفریط کا شکار ہوجاتے ہیں۔مثلا آج کل کے نوجواں کو سارا سار ا دن فیس بک اور واٹس اپ اور سوشل میڈیا کے استعمال میں گذرجاتا ہے۔ یہ کہاں کا طریقہ،کون سی ثقافت اور کیسابے ڈھنگا پن ہے؟ گیم کھیلنا شروع ہوئے تو یوں خرمست ہوئے کہ اذان ہوئی، نماز ہوئی، والد نے آواز دی، والدہ نے بلایا، دروازے پر دستک ہوئی لیکن جناب کو کانوں کان خبر ہی نہیں، یہ کون سی مسلمانی ہے؟ بعض لوگ پیسے کمانے کو مقصد حیات اور زندگی کا جاودانی مقصد سمجھ لیتے ہیں اور بعض دوستوں کے ساتھ گپ شپ اور سیر وتفریح کو وظیفہ جاں بناتے ہیں۔ کچھ لوگ ہر بات میں فضول بحث ومباحثے کو دنیا وآخرت کی بھلائی کا عمل سمجھتے ہیں اور کچھ بالکل خاموش رہنے اور گوشہ نشینی کو عبادت قرار دیتے ہیں۔ اسلام ان سب سے الگ ایک درمیانے راستے کا نام ہے۔
دنیاوی امور میں تو یہ بات بہت آسانی سے سمجھ آجاتی ہے، لیکن دین کے مختلف شعبوں میں کام کرنے والوں میں بھی عموما یہ بات دیکھی گئی ہے کہ وہ جب کسی کام میں لگتے ہیں تو بہت زیادہ شوق اور رغبت کی وجہ سے کچھ بے اعتدالی کرجاتے ہیں جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ عمل بہت جلد چھوٹ جاتا ہے اور پھر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے چھوٹ جاتا ہے۔ اس لیے ہمیں اپنے باقی تمام معاملات میں شریعت کو سامنے رکھتے ہوئے اس چیز کو بھی مد نظر رکھنا چاہیے کہ ہم کسی کام میں بے اعتدالی تو نہیں کررہے۔ بے اعتدالی کی کئی صورتیں ہوسکتی ہیں۔مثلا یہ کہ اس نیک کام میں لگنے کے بعد اپنی صحت کا خیال نہیں رہتا۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ بہت جلد صحت خراب ہوجاتی ہے اور طرح طرح کی بیماریاں سر اٹھانا شروع ہوجاتی ہیں اور پھر آدمی کو احساس اس وقت ہوتا ہے جب پانی سر سے گذرچکا ہوتا ہے۔ اس وقت بہت سارے لوگ پھر دوسروں کو یہ نصیحت کرتے نظر آتے ہیں کہ اپنی صحت کا خیال رکھا کریں۔ یہ اللہ کی بہت بڑی نعمت ہے۔