سوال

میری ایک دوست کے گھر والوں  نے پچھلے سال اسکی نسبت طئے کردی اب اس لڑکے نے اس لڑکی سے بات کرنے کوشش کی لڑکی کا یہ کہنا ہے کہ نکاح سے پہلے بات کرنا گناہ ہے مگر لڑکے کا یہ کہنا ہے کہ جب نسبت طئے ہوجائے تو اب باقی کیا رہ گیا ہے؟ پھر ایک بار لڑکے نے کال کرکے یہ بھی کہا کہ مجھے قبول ہے تمہیں کوئی اعتراض ؟لڑکی بالکل خاموش رہی پھر بات کے دوران ہی لڑکے نے کسی اور سے بھی یہ کہا کہ اپنی  بیگم سے بات کر رہا ہوں اب سوال یہ ہے کہ لڑکی کیا کرے دوسری طرف لڑکے کا اصرار حد سے بڑھ رہا ہے اسکا کہنا ہے کہ میں کسی اور سے بات نہیں کرنا چاہتا صرف بیگم سے کرنا چاہتا ہوں شرعاً کیا حکم ہے ؟

جواب

عورت کا نامحرم سے بلا ضرورت بات چیت کرنا درست نہیں قرآن کریم اور احادیث طیبہ سے پتہ چلتا ہے کہ صرف بوقت ضرورت اور بقدر ضرورت بات چیت کی گنجائش ہے ۔مذکورہ صورت میں صرف نسبت طئے ہوئی ہے نکاح نہیں ہوا لہذا ان دونوں کے درمیان میاں بیوی کا رشتہ قائم نہیں ہوا اور لڑکے کا یہ کہنا کہ ا پنی بیگم سے بات کر رہاہوں یا اب باقی کیا رہ گیا ہے ؟شرعاً غلط ہے نیز اگر لڑکے نے قبول کا لفظ اس نیت سے بولا ہے کہ اس سے نکاح ہوجائے تو واضح رہے کہ اس سے شرعاً نکاح منعقد نہیں ہوا کیونکہ ٹیلی فون پر نکاح نہیں ہوتا اور دیگر لوازمات نکاح مثلاً گواہوں اور مہر کا تعین بھی نہیں پایا گیا ۔لہذا لڑکے کا بیوی سمجھ کر اس لڑکی سے بات چیت کرنا درست نہیں ۔اس صورتحال میں بہتر یہی ہے کہ نکاح کرلیا جائے خصوصاً جبکہ نسبت بھی طئے ہوگئی ہے تاکہ تاخیر کی وجہ سے کسی قسم کا گناہ یا شرعی خرابی لازم نہ آئے ۔واللہ اعلم