کارزار 2
انورغازی
"آہ۔۔۔۔۔ماں جی !"
ماں جی کا اصل نام سکینہ تھا۔ ماں جی کو سفید لباس بہت پسند تھا۔ ان کے اکثر کپڑے، موزے، دوپٹے، عبایا، چادریں اور جوتے سفید ہی تھے۔ ماں جی کا خاندان بڑا دبنگ اور وجاہت والا تھا، اسی وجہ سے ماں جی بھی بہت با رعب اور باوقار شخصیت کی حامل تھیں۔ ہر کام اور ہر چیز میں سب سے اعلیٰ اور نفیس اشیاءکو پسند کرتی تھیں۔ سلیقہ مند تھیں۔ ہر ہر کام سے نفاست جھلکتی تھی۔
ماں جی بچپن سے ہی متقی پرہیزگار، صوم و صلوة کی پابند اور تہجد گزار تھیں۔ مہمان نوازی ان کی گٹھی میں پڑی ہوئی تھی۔ علماء، صلحاء، بزرگانِ دین اور اولیاءاللہ سے بہت عقیدت رکھتی تھیں۔ اللہ رسول کے نام پر ہر چیز قربان کرنے کو ہمہ وقت تیار رہتی تھیں۔
ماں جی کے 3 بھائی اور 7 بہنیں تھیں۔ 5 بیٹے اور 5 بیٹیاں تھیں۔ 72 سے زائد پوتے پوتیاں اور نواسے نواسیاں تھیں۔ان72 سے زائد پوتے پوتییوں اور نواسے نواسیوں میں سے23 حافظ حافظہ اور عالم عالمہ ہیں۔
ماں جی نے اپنی بڑی بیٹی کی اچانک شہادت پر یہ کہہ کر صبر کا بے مثال مظاہرہ کیاتھاکہ اللہ کی رضاءپر راضی رہنا ہی اصل بندگی ہے۔ سب بہن بھائیوں، بیٹے بیٹیوں، نواسے نواسیوں اور پوتے پوتیوں پر دل کھول کر خرچ کرتی تھیں۔ خاندان میں سے ہر فرد یہی سمجھتا تھا کہ ماں جی سب سے زیادہ اسی کے ساتھ محبت کرتی ہیں۔
1985ءمیں جب میرا قرآن پاک حفظ مکمل ہوا تو خوشی کے مارے پورے مدرسے کے طلبہ، اساتذہ اور عملے میں موتی چور لڈو تقسیم کروائے تھے۔ پورے خاندان میں مجھے اپنے ساتھ لیے لیے پھرتی تھیں کہ دیکھیں میرے لال نے پورا قرآن حفظ کیا ہے۔ پھر مجھے عالم اورمفتی بنوایا۔
جب میں نے اپنی پہلی کتاب کا انتساب ماں جی کے نام کیا اور اپنی کتاب ماں جی کی خدمت میں پیش کی تو ماں جی کو یقین نہیں آتا تھاکہ یہ میری کتاب ہے۔یقین نہ آنے کی وجہ انتساب میں موجود ہے۔انتساب کے الفاظ یہ تھے: ”اپنی دو جماعتیں پڑھی نیم خواندہ ”ماں“ کے نام جس کے پاس جب بھی میں اپنی نئی کتاب لے کر جاتا ہوں تو اس کی آنکھوں میں خوشی کے مارے ڈھیروں پانی اُتر آتا ہے، اپنے پلو سے آنکھیں رگڑکر آنسو خشک کرتی ہے اور بلا کی معصومیت سے مجھ سے پوچھتی ہے:
”پتر! اے تو ہی لکھی ہے ناں؟“ میرے بار بار اقرار کے باوجود وہ بے یقینی سے میری آنکھوں میں جھانکتی ہے کہ کہیں میں مذاق تو نہیں کررہا، پھر میں سرورق پر چھپے اپنے نام پر اُنگلی رکھ کر کہتا ہوں: ”ماں خود پڑھ لے کس کا نام لکھا ہے؟“
ماں اپنی عینک کو پلو سے صاف کرکے ناک پر جماتی ہے اور میرا نام پڑھنے کی کوشش کرتی ہے، پچاس سال پہلے پڑھی دو جماعتوںکا تمام تر علم بروئے کار لاکر نام پڑھتی ہے اور سر اُٹھاکر پوچھتی ہے: ”پتر! اے انور تے توں ہی ہے پر اے مُوا غازی کون ای؟“ میری ماں نے تو میرا نام ”انور“ ہی رکھا تھا، یہ ”غازی“ تو میری اپنی ایجاد کردہ بدعت ہے، تب مجھے پتا چلتا ہے ماں کو کیوں یقین نہیں آتا؟ جس روتے دھوتے، منہ بسورتے ”انور“ کو وہ مار پیٹ کر زبردستی مسجد بھیجا کرتی تھی کہ ناظرہ قرآن پڑھ لے، اس کے نزدیک تو اس انور کی عمر میں اب تک کوئی اضافہ نہیں ہوا ”انورغازی“ کے مصنوعی فریم کی پشت پر بیٹھے چھوٹے سے انور کو جاننے والی ان ناموں سے کہاں مرعوب ہوسکتی ہے؟!
مگر قربان جاﺅں اس کی محبت کی اس ادا پر کہ صاف ستھری، نئی نویلی کتاب کو ازسر نو جھاڑ پونچھ کر غلاف چڑھوا دیتی ہے تاکہ گردشِ ماہ وسال کے اثرات سے محفوظ رہ سکے اور پھر کمرے میں موجود الماری کے سب سے اوپر کے خانے میں رکھوادیتی ہے تاکہ ہر دم اس کی نگاہ میں ہو۔ ”اے ماں! دنیا جہاں کی ڈگریاں اور تمام تر علم ودانش تیری اس نیم خواندگی کے پاﺅں کی دھول ہوں! تمام لیاقتیں، قابلیتیں اور اہلیتیں تیری ان معصومانہ اداﺅںپر سو دل و جان سے نثار ہوں!
میں آج جو کچھ بھی ہوں تیری دعاﺅں کا اعجاز ہے، تو نہیں تو اس جہانِ رنگ و بو میں کچھ بھی نہیں، کچھ بھی نہیں، کچھ بھی نہیں۔“ اب ماں جی اس فانی دنیا میں نہیں رہی ہیں۔ 24 فروری 2022ء،بروز جمعرات ،رات 1 بجے کے قریب ماں جی کو ہارٹ اٹیک ہوا، جو ماں جی کی جان لے گیا۔ سکینہ کو سکون آگیا۔ ماں جی کی صحت ہمیشہ سے اچھی رہی۔ کوئی خاص اور موذی بیماری نہ تھی۔ وہ ہمیشہ یہی دعا کرتی تھیں کہ اللہ تبارک وتعالیٰ مجھے چلتے قدموں ہی دنیا سے لے جائیں، کسی کا محتاج نہ بنائیں۔ لگتا ہے ماں جی مستجاب الدعوات تھیں۔
اللہ نے ماں جی کی دعا قبول کر لی اور ماں جی چلتے پھرتے اور ہنستے مسکراتے ہوئے اللہ کے حضور پہنچ گئیں۔ ماں جی کا جنازہ بہت بڑا تھا۔ ہر آنکھ اشک بار تھی۔ ہر شخصماں جی کی تعریف میں رطب اللسان تھا۔ ماں جی جب عمرے پر گئی تھیں تو اپنا کفن مدینہ منورہ سے خریدا تھا اور پھر آبِ زم زم سے دھویا تھا اور وصیت کی تھی کہ مجھے اس میں کفن دیا جائے۔
وفات سے 7 ماہ پہلے اپنا تمام سامان اپنے خاندان کے افراد اور غرباءمیں تقسیم کر دیا تھا۔ وفات کے وقت ماں جی کے پاس کل دس بارہ مختلف کپڑوں کے جوڑے تھے۔ 3 عبایا، 5 شالیں، 4 چادریں وغیرہ تھیں۔ ایک چھوٹا سا بیگ تھا جس میں ماں جی کی کُل کائنات تھی۔ وفات کے وقت بھی ماں جی نے سفید جوڑا ہی زیب تن کیا ہوا تھا۔ سب دوست احباب اور قارئین سے درخواست ہے کہ وہ ہماری ماں جی کے لیے دعائے مغفرت کر دیں۔
قرآن پاک کی کچھ سورتیں یا چند آیات پڑھ کر ایصالِ ثواب کر دیں، حسبِ توفیق صدقہ خیرات کر کے اس کا ثواب ماں جی کو بخش دیں کہ مرحوم کے لیے بہترین توشہ یہی ہے۔ ماں جی کو سپرد خاک کرنے کے بعد جب پلٹا تو سایہ شجردار سے محروم تھا۔ ہر طرف اندھیرا ہی اندھیرا تھا۔ دھوپ ہی دھوپ تھی۔ آنسو ہی آنسو تھے۔ غم ہی غم تھا۔ اداسی ہی اداسی اور ویرانی ہی ویرانی تھی....!! ماں والو! اپنی ماں کی قدر کرو، ان کی خدمت کرو، ان کی بات مانو.... کہ جانے کے بعد پھر پچھتانے سے کچھ نہیں ہوتا۔ www.darsequran.com