User Rating: 5 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Active
 
مفکر پاکستان علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ حضور خاتم المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم کی ختم ِنبوت پر کامل یقین رکھتے تھے اور اس سے انکار کو ناممکنات میں سے گردانتے تھے ،نیز ختم ِنبوت کے منکرین خصوصاََ قادیانیوں کے کفر کا بر ملا اظہار فرماتے تھے ۔ذیل میں علامہ اقبال مرحوم کے عقیدۂ ختم ِنبوت اور قادیانیت کے حوالے سے چند ارشادات نقل کیے جارہے ہیں ۔
٭ علامہ اقبال فرماتے ہیں ’’ذاتی طور پر مجھے اس تحریک ) قادیانیت ( کے متعلق اس وقت شبھات پیدا ہوئے جب ایک نئی نبوت ،جو پیغمبر اسلام کی نبوت سے بھی بر تر تھی، کا دعوی کیا گیا اورتمام عالم اسلام کے کافر ہونے کا اعلان کیا گیا ۔بعدازاں میرے شبھات نے اس وقت مکمل بغاوت کی صورت اختیار کرلی ،جب میں نے اپنے کا نوں سے اس تحریک کے ایک رکن کو پیغمبر اسلام کے بارے میں نہایت ناز یبا زبان استعمال کرتے سنا ‘‘۔
٭’’ ختم ِنبوت اسلام کا ایک نہایت اہم اور بنیادی تصور ہے ۔ اسلام میں نبوت چو نکہ اپنے معراج کو پہنچ گئی لہٰذا اس کا خاتمہ ضروری ہو گیا ہے
٭ختم ِنبوت کے معنی یہ ہیں کہ کوئی شخص بعد اسلام اگر یہ دعوی کرے کہ مجھ میں ہر دو اجزا نبوت کے موجود ہیں۔یعنی یہ کہ مجھے الہام ہوتا ہے اور میری جماعت میں داخل نہ ہونے والا کا فر ہے تو وہ شخص کا ذب ہے ‘‘۔
٭’’اسلام کی اجتماعی اور سیاسی تنظیم میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی ایسے الہام کا امکان ہی نہیں ،جس سے انکار کفر کو مستلزم ہو۔جو شخص ایسے الہام کا دعوی کرتا ہے وہ اسلام سے غداری کرتا ہے‘‘۔
٭جو اہر لعل نہرونے مرزائیوں کی حمایت میں ایک مضمون لکھا ،جس کا علامہ صاحب نے مدلل اور جامع جواب دیا چنا نچہ آخر میں لکھتے ہیں
"In Islam       Prophancy       Reaches    it's     Perfection"-  
٭قادیانی تحریک نے مسلمانوں کے ملی استحکام کو بے حد نقصان پہنچا یا ہے ۔اگر استیصال نہ کیا گیا تو آئندہ شدید نقصان ہوگا ۔
٭ہر ایسی مذہبی جماعت جو تاریخی طور پر اسلام سے وابستہ ہو لیکن اپنی بنیاد نبوت پر رکھے اور بزعم خود اپنے الہامات پر اعتقاد نہ رکھنے والے تمام مسلمانوں کو کافر سمجھے ،مسلمان اسے اسلام کی وحدت کے لئے ایک خطرہ تصور کرے گااور یہ اس لئے کہ اسلامی وحدت ختم ِنبوت ہی سے استوار ہو تی ہے ۔
٭تمام ایکٹر جنہوں نے احمدیت کے ڈرامے میں حصہ لیا ہے ،وہ زوال اور انحطاط کے ہاتھوں میں محض کٹھ پتلی بنے ہوئے ہیں۔
٭ملت اسلامیہ کو اس مطالبہ کا پورا حق حاصل ہے کہ قادیانیوں کو علیحدہ کر دیا جائے ۔اگر حکومت نے یہ مطالبہ تسلیم نہ کیا تو مسلمانوں کو شک گزرے گا کہ حکومت اس نئے مذہب کی علیحدگی میں دیر کررہی ہے ۔کیو نکہ ابھی وہ ) قادیانی( اس قابل ہیں کہ چوتھی جماعت کی حیثیت سے مسلمانوں کی برائے نام اکثریت کو ضرب پہنچا سکے ۔
٭قادیانی جماعت کا مقصد پیغمبر عرب کی امت سے ہندوستانی پیغمبر کی امت تیار کرنا ہے ۔
٭بہائیت، قادیانیت سے کہیں زیادہ مخلص ہے ،کیونکہ وہ کھلے طور پر اسلام سے باغی ہے ،لیکن مؤخرالذکر کو ) قادیانیت ( اسلام کی چند نہایت اہم صورتوں کو ظاہر طور پر قائم رکھتی ہے لیکن باطنی طور پر اسلام کی روح اور مقاصد کے لئے مہلک ہے ،اس کے ضمیر میں یہودیت کے عناصر ہیں۔گویا تحریک ہی یہودیت کی طرف راجع ہے۔
٭نام نہاد تعلیم یافتہ مسلمانوں نے ختم ِنبوت کے تمدنی پہلو پر کبھی غور نہیں کیا۔ مغربیت کی ہوا نے انہیں حفظ نفس کے جذبہ سے عاری کردیا ہے لیکن عام مسلما ن جو ان کے نزدیک ملازدہ ہے ،اس تحریک ) قادیانیت ( کے مقابلہ میں حفظ نفس کا ثبوت دے رہا ہے۔
٭رواداری کی تلقین کرنے والے اس شخص پر عدم رواداری کا الزام لگا نے میں غلامی کرتے ہیں جو اپنے مذہب کی سرحدوں کی حفاظت کرتا ہے۔
٭قادیانی نظریہ،ایک جدید نبوت کے اختراع سے قادیانی افکار کو ایک ایسی راہ پر ڈال دیتا ہے کہ اس سے نبوت محمدیہ کے کامل واکمل ہونے کے انکار کی راہ کھلتی ہے ۔