کارزار 4
انورغازی
"کیا میکاولی کا زمانہ لوٹ آیا ہے؟؟"
ہمارے سیاستدان،حکمران طبقہ اور اپوزیشن ٹولہ،سیاسی جماعتوں کے قائدین اور کارکنان ایک دوسرے کے خلاف ایسی ایسی گفتگو کررہے ہیں ،ایسے ایسے الزامات لگارہے ہیں اور ایسا طرزعمل اختیار کر رہے ہیں کہ زمانہ جاہلیت بھی شرما جائے۔موجودہ سیاسی دور میں اتنا جھوٹ بولا گیا کہ شیطان بھی خجالت سے زرد پڑگیا ہے۔ ظلم، جھوٹ، منافقت، مگرمچھ کے آنسو، اپنوں کی تباہی میں مشغول، غیروں کی غلامی پر نازاںیہ روش کہاں سے لی گئی ہے؟
تلاش بسیار کے بعد ہم نے جان لیا کہ یہ دور، یہ عہد کس کے عہد کی تجدیدی صورت ہے؟ یہ کس کے فرامین؟ کس کی تعلیمات؟ کس کے ارشادات اور کس کی اتباع وپیروی ہورہی ہے؟ اگر آپ نے بھی اس حقیقت سے واقف ہونا ہے تو آپ کو چند صدیاں پیچھے جانا ہوگا۔ پندرہویں صدی عیسوی کے وسط میں اٹلی اپنی تاریخ کے بدترین دور سے گزر رہا تھا۔ ملک کی اقتصادی، معاشرتی اور سیاسی صورتِ حال دگرگوں تھی۔ سرکاری سرپرستی میں عوام کو ظلم کی چکیوں میں پیسا جارہا تھا۔ ماورائے عدالت قتل اور گمشدہ افراد کے کیسز ہر ہر خاندان کا مسئلہ بن چکے تھے۔ ان حالات میں اٹلی کو ایک مفکر ومدبر کی ضرورت تھی جو اس گھمبیر صورتِ حال سے ملک کو نکالے۔ جب انسان کا رابطہ آسمانی وحی سے کٹ جائے تو وہ زمین پر بسنے والی حقیر مخلوق سے رہبری ورہنمائی کی توقعات باندھ لیتا ہے۔ کچھ ایسا ہی معاملہ اٹلی کے ساتھ ہوا۔ بحران کے اس شدید ترین دور میں اس کو آسمانی ہدایت، خدائی احکام، الٰہی تایید ونصرت، پیغمبرانہ رہنمائی اور اخلاقِ نبوت کی ضرورت تھی مگر چونکہ اس نوعیت کے تمام باب یہ قوم مدتوں پہلے بند کرچکی تھی اس لیے ”مفکرین“ میدان میں آئے۔ ان میں سب سے اہم ترین نام ”میکاولی“ کا تھا جو اٹلی کے شہر فلورنس میں پیدا ہوا۔ اس کے اعلیٰ وارفع اور اچھوتے خیالات ونظریات کی بنا پر اہلِ فکر ونظر کی طرف سے اس کو ”سیکولر پیغمبر“ (Secular Prophet) کا خطاب ملا۔ میکاولی کو جدید سیاسی فلسفہ کا بانی کہا جاتا ہے۔
اس کا سب سے بڑا کارنامہ ہ شہرہ آفاق کتاب "The Prince" ہے جس نے میکاولی کے نام کو نفاق کے رجسٹروں میں ہمیشہ کے لیے امر کردیا۔ اس کتاب میں حکمرانوں اور بادشاہوں کو کامیاب حکومت کے ”گر“ بتائے گئے ہیں۔ یہ نابغہ¿ روزگار کارنامہ تحریر کرکے اس نے فلورنس کے شہزادے (De-Medci) کی نذر کیا تاکہ وہ اس کی روشنی میں اُمور مملکت بطریقِ احسن چلاسکے۔ خدا جانے میکاولی نے کس ”اخلاص“ سے حکمرانوں کو یہ نصیحتیں کی تھی کہ فلورنس کے شہزادے سے لے کر ہمارے زمانے کے ”اکبر“ تک تمام بے دین حکمرانوں نے اس کے ہر ہر حرف پر دل وجان سے عمل کیا۔ آپ کی خدمت میں میکاولی کی تصنیف کے چند جواہر پارے پیش کیے جاتے ہیں۔ جن کو پڑھ کر حق ہے کہ انسانیت کا سر فخر سے بلند ہوجائے۔
(1)اپنے ذاتی اغراض ومقاصد کو اولین ترجیح دو اور ان کا حصول سرفہرست رکھو۔ طاقت ور حکمران کو کمزور عوام پر ڈرانے، دھمکانے والے قوانین نافذ کرنے چاہیےں تاکہ ان کی سرکشی اور بغاوت کو کچلا جاسکے۔
(2)بے رحمی، سفاکیت اور ظالمانہ روش وہ لازمی اوصاف ہیں جن کے بغیر کسی اچھی حکمرانی کا تصور بھی محال ہے۔ پرنس کو معقولیت، رواداری اور شائستہ پن کے فتوﺅں بلکہ ڈھکوسلوں میں ہرگز نہیں آنا چاہیے۔ خوف وہراس کی فضا انتہائی ضروری ہے تاکہ ریاست کی حکمرانی موثر انداز سے عمل پذیر ہوتی رہے۔
(3)دبدبہ، ڈر اور رُعب سے متاثر کرنے کے مواقع جات سے فائدہ اُٹھائیے۔ ایک اچھے پرنس کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے دشمنوں کو فنا کے گھاٹ اُتاردے اور اگر ضرورت سمجھے تو دوستوں کو بھی ماردینا چاہیے۔ خاص کر اپنے رشتہ داروں سے بے حد چوکنا اور ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے کہ کہیں وہ قرابت داری کی آڑ میں اس کا خون ہی نہ کردیں۔
(4)ایک پرنس کو نیک بننے کی کوئی ضرورت نہیں۔ البتہ نیکی کا ڈھونگ رچانے میں کوئی حرج نہیں۔ اچھا بننے کی کوشش حکمرانی کے لیے زبردست خطرہ ہے کیونکہ اس سے عوام جری، دلیر اور بے خوف ہوجاتے ہیں۔ البتہ اچھا بننے کی ایکٹنگ کرنے میں کوئی حرج نہیں کہ یہ بھی درحقیقت ظلم وسفاکیت کے ہتھیار ہوتے ہیں۔ لہٰذا پرنس کو چاہیے کہ زبان پر تو رحم وشفقت کے بول ہوں البتہ دل میں فقط سفاکیت اور سنگ دلی ہو۔
(5)ایک اچھے پرنس کو کنجوس، لالچی اور بخیل ہونا چاہیے البتہ پرنس کو اپنے عوام کی دولت بے دریغ نہیں لٹانی چاہیے البتہ دوسرے ممالک کی دولت لوٹنے میں بے حد ماہر اور طاق ہونا چاہیے۔
(6)کسی کی عزت وتکریم نہیں کرنی چاہیے بلکہ صرف اور صرف اپنی عزت اور تکریم کو مقدم رکھنا چاہیے۔ ایک بہترین حکمران میں دوسرے کو برداشت نہ کرنے کا عزم بدرجہ اتم ہونا چاہیے۔
(7)دھوکہ دہی اور فریب بازی کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دینا چاہیے۔ ایسے موقع روز روز نہیں آتے اور نادان بعد میں کفِ افسوس ملتے ہیں۔
(8)پرنس کو دوسرے کے حقوق کی فکر میں ہرگز ہلکان نہیں ہونا چاہیے۔ بالخصوص غیرملکیوں کے نام نہاد حقوق کا تو بالکل خیال نہیں رکھنا چاہیے کیونکہ ان سے حکومت کو بغاوت کا کوئی خطرہ نہیں ہوتا۔ البتہ ان پر بھاری بھر کم ٹیکس عائد کرنے چاہیےں تاکہ ان کو خوب لوٹا جاسکے اور قومی خزانے کو فائدہ پہنچایا جاسکے۔
(9)پرنس کو تمام فوائد اور سہولیات پر قدرت ودسترس ہونی چاہیے مگر یہ فوائد وسہولیات کسی دوسرے کو ہرگز نہیں عطا کرنے چاہییں۔
(10)جب تم اپنے دشمن پر غلبہ حاصل کرلو تو اس کے خاندان اور عزیز واقارب کا نشان مٹادو ورنہ اس کے کچھ رشتہ دار کسی زمانے میں قوت حاصل کرکے تم سے تمہاری غلط کاریوں کا انتقام لے سکتے ہیں۔یہ مغرب کی جدید سیاسی فکر کے Secular Prophet کی تعلیمات ہیں جو یقینا اس لائق ہیں کہ ان کو آبِ زر سے لکھا جائے۔ اگر آپ ان ”روشن ارشادات“ کو ایک دفعہ دوبارہ پڑھیں اور پھر اپنے سیاسی حالات پر نظر ڈالیں تو آپ پر انکشاف ہوگا کہ ہم ”میکاولی“ کے دور میں، میکاولی کے عہد میں اس کے حقیقی پیروکاروں کی سرپرستی میں زندگی کے دن کاٹ رہے ہیں۔ خدا جانے ہم سے کون سا اجتماعی گناہ سرزد ہوا ہے کہ قدرت نے ہمیں اس عہد میں دھکیل دیا ہے اور خدا جانے یہ ظلمت انگیز شب اپنے گرو اور چیلوں سمیت کب اُفق کے پار ڈوبے گی؟! ٭٭٭
پچھلےکالمز پڑھنےکے لئے درس قرآن ڈاٹ کام کی ویب سائٹ پر"آج کی بات" کلک کریں www.darsequran.com