کارزار 3
انورغازی
"مکہ مدینہ میں 22 دن!!"
27 مارچ سے 17 پریل 2022ءتک 22دن کے لیے حرمین شریفین کا مبارک سفر ہوا۔ ان 22 دنوں میں سے 14 دن مکہ مکرمہ اور 8 دن مدینہ منورہ کی مقدس و متبرک فضاو ¿ں میں گزارے۔ اس یاد گار سفر کے دو بڑے مقصد تھے۔ پہلا مقصد یہ تھا کہ اپنے مرحوم والدین کی جانب سے عمرہ اور طواف کرنا۔ آپ جانتے ہیں کہ ایک ہی ہفتے میں ہمارے ابو جان اور ہماری امی جان وفات پا گئی تھیں، جس کا ہمارے پورے خاندان کو صدمہ تھا۔
ویسے تو ہم نے اسے ”رضا بالقضائ“ سمجھ کر بہت صبر کیا، لیکن طبعی اور فطری طور پر ہم اندر سے ٹوٹ چکے تھے۔ والدین کی یادیں ہمہ وقت ستاتی اور آنسو بہاتی تھیں۔ دل میں بڑا ارمان تھا کہ اللہ تعالیٰ کے گھر بیت اللہ شر یف اور روضہ ¿ رسول کے سامنے جا کر والدین کا حق ادا نہ کرنے پر ندامت کے آنسو بہاو ¿ں۔ دردِ دل سنا کر دل ہلکا کروں۔ نجانے کس وقت اور کس انداز میں کی گئی دعاءقبول ہو گئی ا ور مکہ مدینہ سے بلاوا آ گیا۔ چنانچہ ہم نے امی جان اور ابو جی کی جانب سے دو دو عمرے اور بے شمار طواف کیے۔ ملتزم، مقامِ ابراہیم، حطیم اور حجرِ اسود کے سامنے کھڑے ہو کر والدین کے لیے مغفرت کی دعائیں کیں۔ مطاف میں نوافل اور قرآن بڑھ بڑھ کر والدین کی روح کو ایصالِ ثواب کیا۔
معذروں کے لئے کرسیاں اور قرآن پاک لے کر والدین کی طرف سے حرم شریف میں صدقہ جاریہ کے طور پر رکھوائے۔ تمام مقدس اور متبرک مقامات پر جا جا کر دعائیں کیں کہ اللہ تبارک وتعالیٰ ہمارے والدین کی کامل مغفرت فرمائیں۔ انہیں جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام دیں۔ سب کہہ دیں: آمین ثم آمین یا رب العالمین! آپ جانتے ہیں کہ 2019ءمیں آخری مرتبہ حج ہوا تھا۔ اڑھائی تین سال کے بعد حرمین شریفین کھل رہا تھا۔ کورونا وائرس کی وجہ سے جہاں پوری دنیا بند ہوئی، وہیں مکہ مدینہ بھی بن ہوا۔ حرمِ مکی اور حرمِ مدنی میں جانے کے لیے مسلمان ترس گئے۔ دو سال بعد مارچ 2022ءمیں جیسے ہی سعودی حکومت نے کورونا پابندیاں بٹائیں اور اٹھائیں اور حرمین شریفین کو زائرین اور معتمرین کے لیے کھولنے کا اعلان کیا تو پوری دنیا کے مسلمانوں کی خواہش تھی کہ وہ جلد از جلد بیت اللہ کی زیارت کریں اور روضہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر جا کر سلام پیش کریں۔ فطری طور پر ہمیں بھی یہ خواہش ہوئی۔ ہم نے اللہ تبارک وتعالیٰ سے دعائیں کیں تو ہمیں بھی بلاوا آ گیا۔ جب بلاوا آتا ہے تو پھر مسبب الاسباب کی جانب سے تمام تر انتظامات بھی ہو جاتے ہیں۔ چنانچہ امیدوں، خدشات اور خوشی غمی کے ملے جلے جذبات، نم آنکھوں اور دبے قدموں کے ساتھ ہم بھی سوئے طیبہ چل دیے۔ اس مرتبہ گروپ میں مفتیان کرام، علمائے کرام، تاجر حضرات اور سماجی رہنما تھے۔
ان سب نے کئی کئی مرتبہ حج اور عمرہ کیا ہوا تھا۔ گویا یہ سب ما شاءاللہ سے تجربہ کار تھے۔ ہم یہ سوچ کر خوش ہو رہے تھے کہ ان سب کے تجربات سے خوب فائدہ اٹھائیں گے۔ پھر ایسا ہی ہوا ۔الحمد للہ! اس 21 روزہ سفر سے بہت کچھ نیا دیکھنے کو ملا، لیکن ایک بات یاد رکھیں۔ وہ یہ کہ سفر عمرے کا ہو یا حج کا، اس میں صبر، برداشت، طویل انتظار اور مشقت ضرور اٹھاناپڑتی ہے۔ آج کے جدید ترین سسٹم، ترقی یافتہ ملک، بہترین اور تیز ترین آلات کے باوجود جدہ ایئرپورٹ پر گھنٹوں گھنٹوں لائنوں اور قطاروں میں کھڑے ہو کر انتظار کی مشقت اٹھانی، بلکہ اذیت سہنی پڑتی ہے۔ کیونکہ عمرے اور حج کے لیے پوری دنیا سے مسلمان آ جا رہے ہوتے تھے۔ ایک ایک منٹ میں اطرافِ عالم سے جہاز بھر بھر کر آ جا رہے ہوتے ہیں۔ باوجود اس کے کہ سعودی حکمرانوں کی پوری کوشش ہوتی ہے کہ وہ معتمرین، حجاج اور مہمانِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو زیادہ سے زیادہ سہولتیں پہنچائیں اور انہیں کوئی ذرا سی بھی تکلیف نہ ہو۔
اس لیے حجاج کرام اور معتمرین سے مو ¿دبانہ گزارش ہے کہ ہر قدم پر صبر کا دامن تھامے رکھیں اور غصے کو کنٹرول میں رکھیں۔ برداشت کریں بلکہ اس مبارک سفر میں پیش آنے والی تمام مشکلات اور مصائب کو خندہ پیشانی سے خوشی خوشی قبول کریں۔ آپ اللہ تبارک وتعالیٰ اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے مہمان ہیں۔ اللہ تعالیٰ آپ کی تمام قربانیوں کو اپنی بارگاہِ عالی میں منظور فرمائیں گے۔ مدینہ منورہ میں رحمة للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم محوِ استراحت ہیں۔ اس دربارِ عالی کے ادب کا تقاضا ہے کہ زبان سے بھی کوئی ایسا جملہ نہ نکالیں جو محرومی کا سبب ہو۔ آپ جس عظیم مقصد کے لیے حرمین شریفین گئے ہیں، اس کو مدِ نظر رکھیں۔ سعودی حکومت اور خادم حرمین شریفین کی خدمات کو تسلیم نہ کرنا ناسپاسی ہو گی۔ ما شاءاللہ! جب بھی حرمین جانا ہوتا ہے کہ، یہ دیکھ کر خوشی ہوتی ہے کہ سعودی عرب دن بہ دن ترقی کر رہا ہے۔ ان کے انتظام و انصرام میں بہتری ہی آ رہی ہے۔ دنیا بھر سے آئے ہوئے مسلمانوں کو سہولتیں پہنچانے کے لیے ہمہ وقت اور ہمہ جہت کوشاں رہتے ہیں۔ جس دن ہم نے واپس پاکستان آنا تھا، اس سے ایک دن پہلے سعودیہ عرب کے ولی ¿ عہد مسجد نبوی میں روضہ ¿ رسول پر سلام پیش کرنے کے لیے آئے اور پھر مسجد نبوی میں توسیع اور مسجد قبا کو 10 گنا بڑا کرنے کے احکامات جاری کیے۔
معتمرین کو فراہم کی گئی سہولیات کا باریک بینی سے جائزہ لیا اور مزید سہولتیں فراہم کرنے کا حکم دیا۔ کورونا کے بعد سعودی حکومت نے دوسرا اچھا کام یہ کیا ہے کہ حج اور عمرے کے ویزہ آنے والوں کو اجازت دے دی ہے کہ وہ مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کے علاوہ دیگر شہروں میں بھی جا سکتے ہیں۔ چنانچہ اب زائرین طائف اور دیگر شہروں اور مختلف جگہوں پر جا کر کئی مقدس مقامات کی زیارت کر سکتے ہیں۔ اس سے پہلے حج اور عمرے کے ویزے پر جانے والوں کو مکہ مدینہ کے علاوہ دوسرے شہروں میں جانے کی سخت ممانعت تھی۔ وہ طائف تک جانے کے لیے ترستے رہتے تھے۔
پورے سعودیہ اور خصوصاً حرمین شریفین میں مزید کیا تبدیلیاں آ رہی ہیں؟ حالات کیا رُخ اختیار کر رہے ہیں؟ سعودی باشندے کیا سوچ رہے ہیں؟ وہاں کے نوجوان کیا کر رہے ہیں؟ مہنگائی کی کیا صورتِ حال ہے؟ سعودیہ کی معیشت کس کروٹ بیٹھے گی؟ آئندہ پانچ سالوں میں سعودیہ کے سیاسی، اقتصادی، معاشی، سماجی، معاشرتی حالات کیا ہوں گے؟ ان سب موضوعات پر اپنے تفصیلی سفرنامے میں تبصرہ و تجزیہ پیش کریں گے۔سب سے بڑی خوشی کی بات یہ ہے کہ تین سال کے وقفے کے بعد اس مرتبہ 10 لاکھ سے زائد افراد حج کریں گے۔ خوش نصیب ہیں وہ مسلمان جو امسال حج کی مبارک سعادت حاصل کر رہے ہیں۔ پچھلےکالمز پڑھنےکے لئے درس قرآن ڈاٹ کام کی ویب سائٹ پر"آج کی بات" کلک کریں www.darsequran.com