فی البدیہہ -2
عبد الرحمن مدنی
اڑتے پرندے ، سسکتے گھونسلے
پرندے اڑ جاتے ہیں گھونسلہ سونا ہوجاتا ہے بچے بڑے ہو کر اڑان بھرتے ہیں اور ماں باپ اکیلے رہ جاتے ہیں لڑکے نئی دنیا بناتے ہیں اور لڑکیاں پیا دیس سدھار جاتی ہیں اکیلے، بوڑھے اور کمزور ماں باپ تنہائی کے گہرے سمندر میں غوطے کھاتے کھاتے مر جاتے ہیں۔
کامیابی ، زیادہ آسائشوں کے حصول کا نام بن کر رہ گئی ہے اچھا گھر ، اچھی گاڑی اور بہت سارا پیسہ اچھی نوکری اور اچھا کاروبار ترقی یافتہ ممالک میں رہائش پذیر ہونا اور کولہو کا بیل بن جانا ترقی پذیر ممالک میں کامیابی اسی کا نام ہے ۔
دین سے تعلق بہت زیادہ بھی ہو تو عبادات کی حد تک اور بس ۔ آپ کسی کافر کے ملازم ہیں یا سودی لین دین کے ادارے کے نوکر ، اب انسانوں اور مسلمانوں کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ۔ بس پیسہ ہونا چاھئے اور بہت سارا ہونا چاھئے سب کی کل کائنات یہی ہے اس مقصد کے حصول کے لئے گھر چھوڑنا پڑے یا وطن ، عزیز و اقارب سے دوری اختیار کرنی پڑے یا ملک و ملت اور دوست احباب کو خیر باد کہنا پڑے اس سے کسی کو کوئی فرق نہیں پڑتا ، سب اپنی دنیا بنانے کی دھن میں مگن ہیں ۔
اس سب میں سب سے زیادہ جنہیں سہنا پڑتا ہے وہ بوڑھے ماں باپ ہیں وہ ماں باپ جو اپنی ساری جوانی، اپنی ساری زندگی اولاد کی خاطر تج دیتے ہیں اپنا لہو نچوڑ کر اولاد کی نسوں میں اتار دیتے ہیں باپ پسینے کا سمندر اور ماں دودھ کا دریا بہا دیتی ہے سب کچھ وار دینے کے بعد بھی دونوں وہاں کھڑے ہوتے ہیں جہاں سے چلے تھے ، یعنی اکیلے اور تنہا ۔
والدین کو جب اولاد اور اسکے سہارے کی ضرورت ہوتی ہے تب وہ اولاد سرے سے موجود ہی نہیں ہوتی اور اگر اولاد خود اس گھر کو نہ چھوڑ سکے تو وہ ماں باپ کو ہی گھر سے دیس نکالا دے دیتی ہے نہ بہو کو گھر میں ساس سسر برداشت ہیں اور نہ بیٹے یہ ذمہ داری اٹھانے کو تیار ہیں اور جو بادل نخواستہ ماں باپ کے ساتھ رہ رہے ہیں انکا رویہ بھی ماں باپ سے ایسا ہے کہ ماں باپ ان سے نالاں ہیں اور وہ خود ماں باپ سے بیزار جنہیں مر کر بھی چین نہ ملے وہ کہاں جائیں ؟
والدین کی تو مر کر بھی گلو خلاصی نہیں ہوتی والدین کی لاشیں سرد خانے میں رکھوادی جاتی ہیں کیونکہ بچوں نے سات سمندر پار سے منہ دیکھنے اور جنازہ پڑھنے کی ریت نبھانے آنا ہوتا ہے۔
آج کی اولاد کو والدین کی دعا تو چاھئے مگر انکا ساتھ نہیں چاھئے والدین دس بچوں کو پال لیتے ہیں لیکن دس بچوں سے والدین کی ذمہ داری نہیں اٹھائی جاتی جنہیں اف تک کہنے سے منع کیا گیا انہیں ایسا زندہ درگور کیا جاتا ہے کہ وہ اف، اف کرتے آف جاتے ہیں اپنی اولاد کو ہر دم آنکھوں کے سامنے رکھنے کی خواہش رکھنے والے اپنے والدین کو برسوں ملنےتک نہیں آتے ہر گھر میں سکستے بزرگ بیمار بوڑھے ، تنہائی کے مارے لاچار کوئی اور نہیں ، ماں اور باپ ہیں وہ ماں باپ جنہوں نے جنم دیا ، پالا پوسا اور جوان کیا حتی کہ جیون تیاگ دیا ۔۔۔ اور بدلے میں انہیں ملتا ہے ، بن باس ، دہکتا وچھوڑا اور لمبی جدائی۔
عالیشان محلات ہوں یا عام سے مکانات کہانی وہی ہے تازگی دینے والے بوسیدگی کا شکار ہیں بنانے والے بکھر رہے ہیں لوریاں دینے والے ہونٹوں پر پپڑیوں کا ڈیرہ ہے پرندے اڑ گئے ہیں آشیاں ویراں ہے بچے اچھی دنیا کے لئے انمول آخرت چھوڑ گئے ہیں دعاوں والے وجود خزاوں اور وباوں کی زد میں ہیں وہ جو بس پیار، توجہ اور ساتھ چاھتے ہیں انکا ساتھ دینے کو تنہائی اور صرف تنہائی ہے رہنا ایک گھر میں ہے چلانی ایک گاڑی ہے کھانی دو روٹیاں ہیں والدین کے ساتھ رہ لو یا انہیں اپنے ساتھ رکھ لو سایہ دار درختوں کی چھاوں میں رہ لو ، جنت کو جہنم اور بہار کو خزاں مت بناؤ، پلٹ آؤ۔
اس سائے کے بعد کوئی سایہ نہیں زمانہ بے رحم لوگ خود غرض راہ سنگلاخ اور موسم بہت تلون مزاج ہے یہ برگد ہٹے تو آبلہ پا ہوجاو گے اڑان آشیاں کی جانب ہی اچھی ہوتی ہے دیار غیر کے مغرور باشندو۔۔ سسکتے گھونسلوں کے مفرور پرندو ، لوٹ آؤ