فی البدیہہ - 11
عبد الرحمن مدنی
روشنی کی قندیل اُمید کی کرن
مرحبا اے ماہ مقدس ،
مرحبا اے ماہ مبارک،
خوش آمدید ،
روشنی کی قندیل امید کی کرن اسے حقیقی دردمندی کہتے ہیں اس وقت سامنے آنا جب دوسروں کو ، ملک و ملت اور قوم کو آپ کی اور آپ کے اثر رسوخ کی ضرورت ہو ، بدلے میں آپ کو کچھ بھی ملنے والا نہ ہو ، آپ کو کسی نے بلایا بھی نہ ہو اور اس بات کے بھی امکانات ہوں کہ آپ کے خلوص پر شک کیا جائے فریقین میں سے کوئی آپ پر کیچڑ بھی اچھال سکتا ہو ، لیکن آپ پھر بھی سامنے آئیں اور افہام و تفہیم کا ڈول ڈال دیں ،لڑائی جھگڑے اور شدت پسندی کو افہام و تفہیم اور اعتدال و ابتسام کی جانب لے جائیں یہ آپ کے اخلاص کی بین دلیل اور آپ کے دردمند دل کی عملی حکایت ہوگی۔
اپنے لئے اور اپنی ضروریات کے لئے اپنے حق اور اپنی ذات کے لئے تو سبھی اٹھتے ، بڑھتے اور لپکتے جھپکتے ہیں دوسروں کے لئے ، اپنے نقصان پر تلے ہوئے غصیلے تلنگوں کے لئے کم ہی کوئی سامنے آتا ہے ، لوگ کہتے ہیں ، ہمیں کیا ؟ ہم کیوں پرائے پھڈے میں پڑیں ، اڑتا تیر اور پڑی بلی کی شرمناک مثالیں بھی دی جاتی ہیں جو صلح کرانے نکلے ، بیچ بچاؤ کرائے۔
لوگ اسے پہلے تو شک کی نظر سے دیکھتے ہیں اور اگر کوئی مشکوک وجہ سامنے نہ آئے تو پھر اسے باولا یا جذباتی سمجھتے ہیں کسی کی لڑائی ہو تو لوگ مزے لیتے ہیں ، پرائی آگ پر ہاتھ سینکتے ہیں ، ترجیحات طے کرتے ہیں کہ کس کی جیت میں ہمارا فائدہ اور کس کی ہار میں ہماری تسکین کا ساماں ہے دونوں طرف اپنا مارجن پہلے دیکھ لیتے ہیں ، بعض نہ صرف تماشہ دیکھتے ہیں بلکہ بھڑکتی پر تیل چھڑک کر بڑھاوا دیتے ہیں یہ غیر مسلم معاشرے کی بات نہیں ہورہی ، یہ مسلم معاشرے ،مسلم ملک اور اسلامی ایٹمی قوت ، اسلامی جمہوریہ پاکستان کی بات ہو رہی ہے جو 27 رمضان المبارک کو معرض وجود میں آیا ، جسکا خمیر ہی مسلم بھائی چارے اور معافی اور صلح صفائی پر اٹھا ہے یہاں قبائلی اور عصبیتی جھگڑوں پر سیاسی مخاصمتیں بازی لے گئی ہیں الزامات و اتہامات، گالم گلوچ، توں تڑاق، اسٹیج بےباک اور ہر حساب بے باق ، اختلاف رائے کا حسن گہنا گیا ہے اور اخلاقیات کو گھن لگ گیا ہے صلح کرانے والے کو کہا جاتا ہے ، تمہیں کیا ۔ تمہارا کیا جارہا ہے ؟ تمہارا کیا لینا دینا
ع : تجھ کو پرائی کیا پڑی ،
اپنی نبیڑ توں یہی عام طرز عمل ہے اسے ہی سیانوں کا وطیرہ مانا جاتا ہے حالانکہ خالق کل جہاں کا کتاب لاریب میں لافانی فرمان ہے کہ ( ایمان والے آپس میں بھائی ہیں تو بھائیوں میں صلح کرادیا کرو ) آج جب کہ ہر طرف ، ہر ایک کو اپنی پڑی ہے ، پنجاب اسمبلی سیل اور خاردار تاریں ویلڈ کی جا رہی ہیں حدت اپنی شدت پر ہے ، مخالف سیاسی پارٹیاں اور کارکنان ایک دوسرے کے درپے آزار ہیں سیاسی پارہ چڑھا ہوا ہے ، ایسے میں ایک عالم دین ، ایک ممبر پارلیمنٹ ایک مذہبی راہنما جن کے والد بھی ایک عالم دین اور مذہبی راہنما تھے اور کئی مرتبہ قومی و صوبائی اسمبلی کے ممبر رہے ، اس نوجوان عالم دین نے صلح کا ڈول ڈالا ہے اور دیگر کئی علماء سے بات کی ہے اور تمام مسالک کے علماء سے بات کی ہے اور اپنا وڈیو پیغام بھی ریکارڈ کرایا ہے اور کہا ہے کہ علماء آگے آئیں اور سیاسی کشیدگی کو ختم کرانے میں اپنا کردار ادا کریں ، یہ ایک اچھا مثبت اور درست طرز عمل ہے ، ہر مسلمان اور بطور خاص علماء اور مذہبی راہنماوں سے اسی کردار کی توقع کی جانی چاھئے اور انہیں ایسے ہی مثبت کردار اور درخشندہ رنگ روپ میں جلوہ گر ہونا چاھئے ایسی ہستیاں روشنی کی قندیلیں امید کی کرن ، نظروں کی ٹھنڈک اور قلوب کا اطمینان ہیں رمضان المبارک کا مقدس مہینہ ہے شیطان پابند سلاسل ہیں تو شیطانی دھندے بھی ٹھنڈے ہونے چاھئیں۔ خیر کے حامل کو آگے آنا چاھئے اور شر کے علم بردار کو رک اور تھم جانا چاھئے ۔
مبارک مہینے میں مبارک عمل کو زندہ کرنے والے بڑی مبارک ہستیاں ہیں ، انہی روشن میناروں سے بستیاں بستی، مہکتی اور دمکتی ہیں ، مولا ، راکھی رکھے انکی، اسی رکھ رکھاؤ کے رکھوالے ،، پرکھوں کی روشن وراثت کے راکھی بان ہیں پچھلےکالمز پڑھنےکے لئے درس قرآن ڈاٹ کام کی ویب سائٹ پر"آج کی بات" کلک کریں www.darsequran.com