فی البدیہہ - 10
عبد الرحمن مدنی
رحمتوں کی رِم جھم
مرحبا اے ماہ مقدس ، مرحبا اے ماہ مبارک، خوش آمدید ،اے ماہ عطا ، ماہ جودوسخا،۔ اہل زمیں کو مبارک کہ ایک بار پھر وہ مقدس مہینہ ان پر سایہ فگن ہونے والا ہے جس کا انتظار خود آقائے دو جہاں ختم الرسل محمد الرسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم )کو بھی ہوا کرتا تھا محبت و کرم کا مہینہ ،عبادت و ریاضت کا مہینہ، ہمدردی وغمگساری کا مہینہ ،معافی تلافی کا مہینہ، آہ و زاری اور عاجزی و انکساری کا مہینہ،تلافی مافات اور گریہ و زاری کا مہینہ ،دل کی کدورتوں اور روح کی کثافتوں کو دور کرنے کا مہینہ، پورے سال کی کمی اور کوتاہی کی تلافی کر کے دوبارہ اپنے رب کے قریب ہونے کا مہینہ ،وہ مہینہ جس میں مومن کا رزق بڑھا دیا جاتا ہے جب قلوب نسبتاً نرم ہوتے ہیں جب شیاطین قید کر دئیے جاتے ہیں نیکی کرنا گناہوں سے دور رہنا آسان ہو جاتا ہے۔
رمضان المبارک ، قرآن کریم کا، روزہ و تراویح کا اور آگے بڑھ کر نیکیوں کے حصول کا مہینہ ہے ۔ یہ وہ مہینہ ہے جس میں مالک کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ اپنے روزہ دار ملازم کے کام میں نرمی کر دے یعنی محبت و مودت اخوت و مواخات اور اخوت و مساوات کا مہینہ، وہ مہینہ جس میں جنت کی تزئیین و آرائش کی جاتی ہے یعنی جنت کے حصول کے لیے خود کو ہمہ تن ، وقف کر دینے کا مہینہ ۔
اتنا مقدس مہینہ کے جو شخص اس مقدس ماہ کو پا کر بھی اپنی بخشش کا ساماں نہ کرے اس پر فرشتوں کے سردار جبرئیل امین نے لعنت کی بد دعا دی تو خاتم الانبیاء علیہ السلام نے اس دعا پر آمین کہا ، یہ مہینہ ہر لحاظ سے باعث خیر و برکت باعث رحمت و مغفرت ہے لیکن۔۔۔۔۔اگر اس قدر مبارک و مقدس مہینے میں بھی خیر کی جانب پیش قدمی نہ ہو اگر اس ماہ مبارک میں بھی ترک معاصی کا اہتمام نہ ہوا اگر اس شہر ،،پرضیا،، میں بھی رحمت حق کی تلاش نہ ہو تو یہ بات انتہائی خطرناک اور یہ علامت انتہائی بدبختی کی ہے ۔
نمازویں چھوڑ کر بازاروں کے چکر لگانا چند روپے کی خاطر دکان نہ چھوڑنا اور دکان میں بیٹھے رہنا عید کی خریداری کے نام پر آخری عشروں کو بازاروں میں برباد کرنا بد نظری کا شکار ہونا اور اپنی نظروں کو آلودہ کرنا ہمارے ہاں عام ہو چکا ہے صوفیا نے روحانی ترقی کے لئے تین قسم کی قلتوں کو انتہائی مفید قرار دیا ہے قلت طعام قلت کلام اور قلت منام یعنی بالکل سیر ہو کر نہ کھائے جس سے سستی اور خماری کا غلبہ ہو ، قلت کلام یعنی بلاضرورت بات چیت نہ کرے اور غیر مفید بات تو بالکل نہ کرے اور گپیں بھی نہ ہانکے۔ قلت منام یعنی سونے میں کمی کردے ہر وقت سوتا نہ رہے صرف اتنا سوئے جتنا کہ صحت اور تندرستی کے لیے ضروری ہے اطباء نے سات سے نو گھنٹے کی نیند کو بالکل کافی و وافی قرار دیا ہے جبکہ ایک درمیانے درجے کے صحت مند آدمی کے لیے سات گھنٹے کی نیند کافی ہے زیادہ سونے سے جسم بڑھتا ہے اور جسم میں بھاری پن بھی پیدا ہوتا ہے۔
جس طرح بقدر ضرورت نیند ،،طبیعت ،، میں فرحت و تازگی پیدا کرتی ہے اسی طرح ضرورت سے زائد نیند طبیعت میں سستی وکسلمندی پیدا کر دیتی ہے تو رمضان المبارک میں اگر ان تینوں کاموں کی ریاضت اور پابندی کی جائے تو بقیہ مہینوں میں اس پر کاربند رہ کر ایک صحت مند ، پاکیزہ اور روحانی زندگی گزاری جا سکتی ہے۔
لوگ روزہ رکھ کر اسے گزارنے کے لئے عموما دو طریقے اختیار کرتے ہیں۔ فارغ البال یا تو سوتے رہتے ہیں یا پھر اسکرین پر وقت گزارتے ہیں نوجواں نسل پوری رات انٹرنیٹ یا کسی دوسری اسکرین پر یا موبائل پر بات چیت میں گزارتی ہے پوری رات سونے کا معمول نہیں ہوتا صبح سحری کرنے کے بعد سوتے ہیں اور یوں روزہ سوتے سوتے گزر جاتا ہے گویا روزے کا مقصد ہے بھوکا رہنا اور بھوک کی تکلیف سو کر کاٹ لینا عصر کے وقت بیدار ہو کر نہا دھو کر فارغ ہوتے ہیں تو افطار کا وقت ہوجاتا ہے اور رات کو پھر وہی معمول ،، پل پل قیمتی اور لمحہ لمحہ انمول ہے رمکے رمکے رحمتوں کی رم جھم ہوتی چلی جاتی ہے اور آخرے عشرے میں تو مینہ برسنے لگتا ہے منہ زور مینہ ،،رمضان میں سب سے قیمتی آخری عشرے کے ایام ہیں اور انہی ایام میں اعتکاف بھی کیا جاتا ہے ۔ یہ وہ عشرہ ہے جس کی طاق راتوں میں سے کسی ایک رات میں لیلۃ القدر ہوتی ہے۔
جس میں کی گئی عبادت ایک ہزار ماہ کی عبادت سے بھی بڑھ کرہے دکھ اور افسوس کی بات یہ ہے کہ یہی عشرہ سب سے زیادہ ضائع کیا جاتا ہے۔ اس عشرہ میں بازاروں کی رونقیں اپنے عروج پر ہوتی ہیں منافع خوری کے رکارڈ توڑے اور بنائے جاتے ہیں افطار پارٹیز کے نام پر مخلوط محافل اپنے عروج پر پہنچ جاتی ہیں ظلم کمانے کا ایک انداز یہ بھی ہے کہ عید کے مواقع پر بھی بعض مالکان ملازمین کی تنخواہیں ، وظائف اور انکی رقوم روک لیتے ہیں ۔
یہ سب کچھ ہم ،،مسلمان ،، رمضان المبارک میں کرتے ہیں برائیوں اور بد اخلاقیوں سے بچنے کی تربیت دینے والے مہینے میں ہم برائیوں اور بد اخلاقیوں کا ارتکاب کرتے چلے جاتے ہیں حالانکہ یہ وہ مقدس مہینہ ہے جس کا انتظار خود امام الرسل ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کو بھی رہتا تھا۔ وہ ماہ مبارک کے جو سرا سر برکت ہی برکت،، مغفرت ہی مغفرت اور سراپا رحمت ہی رحمت ہے۔۔ مرحبا اے ماہ مناجات اللہ جی ! ہمیں اس ماہ مقدس کے تقدس کی لاج رکھنے کی توفیق عطا فرما دیجئے آمین ثم آمین۔۔۔۔۔۔۔ پچھلےکالمز پڑھنےکے لئے درس قرآن ڈاٹ کام کی ویب سائٹ پر"آج کی بات" کلک کریں www.darsequran.com