فی البدیہہ - 7
عبد الرحمن مدنی
اس طرح تو ہوتا ہے اسطرح کے کاموں میں
اس طرح تو ہوتا ہے اسطرح کے کاموں میں
اسکی لاٹھی بے آواز ہے
وہ جو کرنا چاہتا ہے اسکے اسباب اکٹھے کردیتا ہے
وہ جب چاہے جو چاہے ، وہ ہوتا چلا جاتا ہے
اور اسکے حکم کے بغیر کچھ بھی نہیں ہوتا
عراق اور افغانستان میں نیٹو نے جسموں کے چیتھڑے اڑائے
زندانوں اور عقوبت خانوں میں بربریت کی داستانیں رقم کیں
دلدوز آہوں اور بے کراں آہوں پر قہقہے لگائے
اور اب یوکرین روس رشیا کی زد پر ہے ۔۔
77 سال بعد جنگ ، بالآخر یورپ میں لاشیں گرارہی ہے
عمارتیں زمین بوس اور دھماکے فلک شگاف ہیں ، دھند چھٹ رہی ہے مناظر بہت صاف ہیں
دوسروں کے گھر جلانے والے اپنے گھروں کے ملبے پر رو رہے ہیں
مسلمان ممالک کو تاراج کرنے والے ٹڈی دل کا اپنا جسم لہو لہان ہے ۔
اتنی بڑی فوج اور اس سے بھی بڑی معیشت کے باوجود یورپ بے بس و بے کس ہے
اس نے شکنجہ کسا ہے ۔۔
جو۔ (فعال لما یرید ) ہے
اب پتہ چلا درد کسے کہتے ہیں
اب پتہ چلا جوان بیٹے کی موت پر ماں کا سینہ کیسے پھٹتا ہے
تم نے جنگ کو مذاق جانا ، تم نے مہم جوئی کو ہلکا لیا ۔۔ مسلمان کمزور ہیں لیکن انکا رب بہت طاقتور ہے
بہت رلایا تم نے ہماری ماوں بہنوں کو
بہت ستایا تم نے ہماری معصوم پریوں کو ، بہت مسلا تم نے ہماری کھکھلاتی کلیوں کو ،
اب تمہاری باری ہے ۔۔ اور یہ تو ہونا تھا ۔۔ یہ ہوتا آیا ہے۔
بالآخر یہی ہوتا ہے۔ ظلم کا سورج جتنا بھی چڑھے اسے ڈھلنا ہوتا ہے
جو بویا ہے وہ کاٹنا پڑتا ہے ۔
ظلم بڑھتا ہے تو اسکے مٹنے کے آثار بھی ظاہر ہوتے ہیں ۔۔ اب حبس بڑھے گا ، اب گھٹن بڑھے گی ،،
" کتاب سادہ رہے گی کب تک ؟ کبھی تو آغاز باب ہو گا،
جنہوں نے بستی اجاڑ ڈالی، کبھی تو انکا حساب ہوگا
سحر کی خوشیاں منانے والو۔ سحر کے تیور بتا رہے ہیں۔
ابھی تو اتنی گھٹن بڑھے گی، کہ سانس لینا عذاب ہو گا
ہر جگہ نیٹو افواج اور یوکرین کی افواج امریکہ کے ساتھ ظلم کمانے نکلیں۔ نہتوں پر ، کمزوروں اور لاچاروں پر بم برسائے ، گولیاں برسائیں اور ٹینک چڑھائے۔۔ ملکوں کو لوٹا ، بختوں کو تاراج کیا ۔۔
اور اب تم نشانے پر ہو ۔ ذرا بتاو تو۔
جب بم برستے ہیں۔ جب طاقتور سانڈھ دندناتا چڑھتا چلا جاتا ہے تو ۔۔کیسا محسوس ہوتا ہے۔۔
امت مسلمہ تو سہہ گئی۔ ہماری تاریخ ہے ۔۔ہم سہتے چلے آئے ہیں
ہم نے پوری صدی تمہارا جبر سہا ۔۔
ہمارے بچے ساحلوں پر لاشوں کی صورت پڑے ملے۔۔ ہماری جسم چھلنی ملے۔۔ ہمارے شہر اجاڑ دئیے گئے۔ شام برباد ہوا ۔ عراق تہہ و بالا کیا گیا۔۔ یمن میں آگ لگائی گئی۔۔
لبنان پھونک دیا گیا ۔۔افغانستان نوچ ڈالا گیا ۔ برما جلا دیا گیا ۔۔فلسطین سے خون رس رہا ہے
کشمیر دنیا کی سب سے بڑی جیل بنا دیا گیا۔
تم نے ہر حربہ آزمایا ۔۔ نہ تم مٹا سکے ۔۔نہ جھکا سے ۔۔ نہ ڈرا سکے
ہم آج بھی پورے قد سے کھڑے ہیں
ع: زخموں سے بدن گلزار سہی پر ان کے شکستہ تیر گنو
خود ترکش والے کہہ دیں گے یہ بازی کس نے ہاری ہے
۔۔
سنگ ریزی سے پہلے سوچ لیتے ، گھر تمہارا بھی شیشے کا ہے۔۔
کل کیا ہو نہیں معلوم ۔۔ یہ آگ کہاں تک جائے ۔ کس کس کو بھسم کرے۔۔
نہیں معلوم ۔۔
لیکن اسوقت تم جل رہے ہو۔
تم خانہ بدوش ہو۔۔ تم پر بم برس رہے ہیں۔ تم مارے جا رہے ہو۔ اور جن کے سنگ تم سکندر بننے نکلے تھے ۔
ان سب کے ہوتے ہوئے بھی در بدر ہو
سب کچھ ہوتے ہوئے جو مار دے۔
اسے خدا کہتے ہیں۔ جب چاہے ، جہاں چاہے ۔ چسے چاہے۔۔ فنا کے گھاٹ اتاردے۔ اسے خدا کہتے ہیں
جو ظالموں کو تماشہ بنا دے اسے خدا کہتے ہین۔
تم اسے بھول بیٹھے تھے۔ تمہیں لگا تم بہت دور ہو۔ سات سمندر پار۔
تمہیں لگا ۔۔کوئی تم تک نہ پہنچ سکے گا۔
تمہیں لگا کوئی پوچھنے والا نہین۔۔
تم بھول گئے۔ ایک خدا ہے۔ مالک ہے خالق ہے۔ رب لم یزل ہے۔۔
وہ جب جہاں جسے ، جیسے چاہے۔۔
پکڑ لے۔ اسے کوئی نہیں پوچھ سکتا۔
یہ دنیا دار الاسباب ہے تو وہ مسبب الاسباب اور رب الارباب ہے۔۔
وہ فرعون کے گھر میں موسی پال لیتا ہے۔
وہ سات سمندر پار پکڑ لیتا ہے
وہ بے آہٹ جکڑ لیتا ہے۔ اسکی لاٹھی بے آواز ہے۔
انصاف کی چکی ذرا دھیرے چلتی ہے
مگر اسکے پاٹوں میں بہت باریک پستا ہے۔۔
تم ہو۔ یورپ ہے۔ نیٹو ہے۔ امریکہ ہے
طاقت قوت ۔ فوج۔ پیسہ سب ہے
گھر بھی تمہارا ہے۔ پھر بھی مر رہے ہو۔ رو رہے ہو۔ چیخ رہے ہو۔ تلملا رہے ہو۔ مدد کو پکار رہے ہو۔ تمہیں اپنے جتھے پر ناز تھا۔
آج سب کے ہوتے ہوئے بھی ، سارے وارثوں کے ہوتے ہوئے بھی لاوارث ہو۔
لاوارثوں کی طرح مارے جا رہے ہو۔۔
“وارث شاہ نہ مان کر وارثاں تے
رب بے وارث کر ماردا اے” -
تم نے بہت ظلم کمایا ۔۔
اب مکافات عمل کا وقت ہے۔۔
تمہیں حساب چکانا ہے
اپنے کئے کا پھل پانا ہے۔۔
تمہارے بعد اور بہت ہیں۔۔
ذرا ٹھرو۔ اور غور سے سنو۔۔۔
یہ سب رکنا نہیں۔۔
اور اسے کوئی روک بھی نہیں سکتا۔
تمہاری گوری چمڑیاں۔۔ تمہارے سنہرے بال ۔ تمہارے خوبرے جثے
تمہارے گلال گال۔۔ ترقی یافتہ شہر
پڑھے لکھے باشندے۔ سامان زیب و زینت۔۔ بہت سارا پیسہ۔۔۔۔ یہ سب۔۔
اور اسکے علاوہ سب کچھ ۔ سب کا سب
بموں کی زد میں ہے۔ ہم تمہاری بربادی پر خوش نہیں۔
۔۔ ہم لاشوں پر دھمال نہیں ڈالتے۔
ہم قیدیوں پر کتے نہیں چھوڑتے
ہم لاشوں کے ساتھ سیلفیاں نہیں لیتے۔۔
ہم مہم جوئیوں میں ملک تاراج نہیں کرتے۔ جو ہورہا ہے ۔۔وہ ہم نہیں کررہے۔
تم تو اسکی پکڑ میں ہو۔
جسے تم نے للکارا تھا۔
جس کی خلقت کو تم نے ستایا۔۔ جس کے بندوں کو تم کچلا مسلا۔۔
اس رب کا نظام حرکت میں ہے
پہلے سوچا ہوتا۔۔ ۔۔۔
اب اداس پھرتے ہو سردیوں کی شاموں میں
اس طرح تو ہوتا ہے اسطرح کے کاموں میں۔۔۔